حریم شاہ کے گھن چکر

جمعرات 3 فروری 2022

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

کہتے ہیں کہ جب ایک مرد راہ راست سے بھٹک جائے تو ایک خاندان برباد ہوتا ہے لیکن جب ایک عورت غلط راستے پر چل پڑے تو ایک نسل تباہ ہو جاتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور آگے نکلنے کی دوڑ میں سینکڑوں مرد و خواتین اپنی تباہی کا سامان کر چکے ہیں۔ انہی میں سے ایک ٹک ٹاکر حریم شاہ نامی خاتون کا شمار بھی ہوتا ہے جو کہ اپنے متنازعہ کردار کی وجہ سے کافی بدنام زمانہ عورت ہے، جو ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر خبروں کی زینت بنی رہتی ہے۔

اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ سے دوسری عورتوں کی بدنامی ہو یا پھر ملک کی بدنامی ہو رہی ہو اسے صرف اپنی نام نہاد اور متنازعہ شہرت سے غرض ہے۔ در حقیقت حریم شاہ ایک بد کردار عورت ہے کیونکہ وہ غریب گھرانے کی لڑکی ہے اور چند سالوں میں ہی ایک اعلیٰ اور شاہانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو گئی جو حلال کمائی اور محنت سے ممکن نہیں۔

(جاری ہے)

اس عورت کا کوئی ذاتی کاروبار بھی نہیں اور نہ اس کے پاس ایسے وسائل تھے کہ وہ ایک اعلیٰ زندگی گزارنے کے قابل ہوتی، یہ بات کرتے ہوئے مجھے کوئی قباحت نہیں کہ حریم شاہ ٹک ٹاکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دھندہ کرنے والی عورت ہے ۔

جس کی تصدیق خود اس کے والد نے بھی کی ہے کہ حریم کا اصل نام کچھ اور ہے اور وہ پہلے ایک عالمہ فاضلہ تھی پھر غلط راستے پر چل پڑی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس عورت کے پاس ایسی کونسی جادو کی چھڑی ہے کہ یہ صحافیوں کے ذاتی گھروں میں گھس جاتی ہے، اور اس کے پاس ایسے کونسے ذرائع ہیں جن کے بل بوتے پر ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کے سرکاری دفاتر تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔

اور اصل سوال یہ ہے کہ کیا کسی مرد کو بھی یوں سرکاری دفاتر میں ٹک بنانے کی اجازت ہے؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے اگر کسی مرد نے یوں کسی سرکاری دفتر میں وڈیو بنا کر اسے متنازع بنایا ہوتا تو اس پر بھی اتنی خاموشی اختیار کی جاتی؟ مگر حریم شاہ نے صرف یہاں تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے پاس شیخ رشید کا ذاتی نمبر ہے جس پر کبھی وہ وڈیو کال کرتی ہے اور کبھی کسی شو میں بیٹھ کر شیخ رشید کا سرعام نمبر ملا کر ٹھٹھہ کرتی ہے مذاق اڑاتی ہے اور ان سب حرکتوں کے باوجود آگے سے شیخ رشید کی صرف خاموشی ہے۔

جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے اور کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے، شیخ رشید کا حریم شاہ کے ساتھ ایسا کیا تعلق ہے کہ اس کی ایسی گھٹیا حرکتوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ملک کے سرکاری ادارے کے وزیر کے ساتھ سرعام ایسی حرکتیں کرنے اجازت کس نے دی؟ کیا کسی عام مرد کو بھی اجازت ہے کہ ایسے کسی ٹی وی شو میں بیٹھ کر ملکی وزیر کا نمبر ملا کر اس کے ساتھ مذاق کرے اور زور زور سے ہنسنے لگے؟ اگر نہیں تو پھر اس عورت کو اتنی آزادی کیوں دے رکھی ہے؟ یہ کبھی فیاض الحسن چوہان کے دفتر میں ٹک ٹاک بناتی ہے اور کبھی شیخ رشید کا سرعام نمبر ملا کر قہقہے لگاتی ہے۔

اس عورت پر اتنی مہربانی کیوں کی جا رہی ہے؟ اس کے خلاف کسی نے بھی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں، اگر اس کے خلاف پہلے کاروائی کر لی جاتی تو یہ بیرون ملک جا کر پاکستان کی بدنامی نہ کرتی۔ غیر ملکی کرنسی دکھا کر پاکستانی کرنسی کی توہین نہ کرتی، اب اتنی بڑی رقم کا حساب مانگا جا رہا ہے تو تب اسے برا لگ رہا ہے۔ اب چونکہ معاملہ حساب اور احتساب کی طرف چل ہی پڑا ہے تو سب سے پہلے اس بات کا پتہ لگا کر قوم کو بتایا جائے کہ اس عورت کے ذرائع آمدنی کیا ہیں؟ اس کی سرکاری دفاتر تک رسائی کیسے اور کیوں کر ممکن ہے؟ سیاسی اور صحافتی اشخاص کے ذاتی نمبروں تک رسائی کیسے ممکن ہوئی اور اس کے اتنی خطیر رقم کے کیا ثبوت ہیں؟ اگر ان سوالوں کی کھوج نہ لگائی گئی تو حریم شاہ جیسی کئی بلیک میلر مارکیٹ یونہی دندناتی پھریں گی اور ملک و قوم کی ذلت کا باعث بنتی رہیں گی۔

اور یونہی آنے والی نسلوں کی تباہی کا سبب بنتی رہیں گی لہذا اس عورت کو لگام ڈال کر آگلی نسلوں کو تباہی کے راستے سے بچایا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :