بدبو دار سوچ

ہفتہ 12 فروری 2022

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

موبائل فون کے جہاں بے شمار فائدے ہیں وہیں ایک سنگین اور معاشرتی نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارے معاشرتی اور احساساتی رویے بدبو دار ہو گئے ہیں۔ خاص کر جب سے معاشرے میں سوشل میڈیا کا رواج عام ہوا ہے تب سے انسانوں کے اندر کے احساس اور ہمدردی تقریباً وفات پا گئی اور ہم ایک بے مقصد وجود کو لیے اپنی سانسیں پوری کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے وجود کو لیے پھرتے ہیں جو تندرست اور توانا تو ہے مگر اس میں عقل مرجھا گئی اور احساس کے جذبے وائرل ہونے کی خواہش میں ہی کہیں دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔

آپ معاشرتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پہلے پہل جب کوئی دو افراد آپس میں جھگڑا کرنے لگتے تو تیسرا بیچ بچاؤ کروا کے صلح کروانے کی کوشش کرتا تھا مگر آج اگر دو افراد جھگڑا کر رہے ہوں تو تیسرا موبائل نکال کر وڈیو بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے، اور پھر اس وڈیو کو سوشل میڈیا پر ڈال کر دونوں کے درمیان مزید نفرت اور غصے کی آگ بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے یا کوئی انسان مرتا ہو تو اسے بچانے کی بجائے وڈیو بنا کر وائرل کرنے کیلئے اور جعلی شہرت حاصل کرنے کیلئے اپ لوڈ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جب معروف قوال امجد صابری پر فائرنگ ہوئی تو وہ تقریباً دس پندرہ منٹ زندہ رہے اور اس جگہ سینکڑوں لوگ جمع تھے اور تقریباً سب ہی وڈیو بنانے میں مصروف تھے، موت کی کیفیت سے دو چار انسان کو کسی نے بھی پانی کے دو گھونٹ تک نہیں پلائے اور موبائل فون پر وڈیو بناتے رہے۔

امجد صابری تو چلے گئے مگر اصل حادثہ پیچھے رہ گیا جو ہماری سوچ کے ساتھ پیش آیا تھا، ایک اور بدبو دار رویہ جو ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے وہ فحش ویڈیوز کا لیک ہونا ہے جب بھی کوئی وڈیو لیک ہوتی ہے تو وہ کسی ایک طبقے کو ملتی ہے یا اس کے لیک ہونے کی خبر صرف ایک طبقے کو ملتی ہے پھر وہ طبقہ اپنا قومی فریضہ سمجھ کر سب کو اس فحش مواد کے متعلق بتاتا ہے اور یوں لیک ہونے والی وڈیو میں کسی نہ کسی کی خوب کردار کشی ہو گی۔

اس رویے سے متعلق ایک واقعہ یاد آ گیا کہ یہ تقریباً نوے کی دہائی کا واقعہ ہے کہ ایک ساؤتھ افریقی فوٹوگرافر جرنلسٹ جس نے سوڈان میں قحط سالی کے دوران ایک تصویر کھینچی، جس میں دیکھایا کہ ایک گدھ ایک قریب المرگ بچی کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ وہ اسے نوچ کر کھا سکے۔ یہ تصویر کھینچ کر اس فوٹوگرافر نے شہرت اور ایوارڈ بھی حاصل کر لیے۔

لیکن وہ اپنی اس شہرت اور اعزاز کو زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکا اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر مر گیا۔ کیونکہ اس سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے تصویر اچھی بنا کر شہرت اور ایوارڈ تو حاصل کر لیا مگر اُس بچی کا پھر کیا بنا؟ جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا، پھر سوال پوچھنے والے نے کہا کہ اس دن وہاں ایک نہیں بلکہ دو گدھ موجود تھے ایک وہ جس کے ہاتھ میں کیمرہ تھا۔

آج ہمارے معاشرے میں بھی ایسے گدھ نما کئی کیمرہ مین موجود ہیں جو کئی دل خراش واقعات کو بے دردی سے اپنے کمیروں میں فلماتے ہیں مگر کبھی کوئی اپنے ضمیر کے بوجھ تلے دب کر مرا نہیں۔ ہمیں اس بدبو دار سوچ کو ختم کرنا چاہیے، کیمرے اور سوشل میڈیا کا درست استعمال اب سیکھ لینا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ہم سب بھی ایک گدھ کی طرح بنتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم بھی اپنے کسی شکار کی تلاش میں رہتے ہیں، کہ کہیں سے کوئی واقعہ یا موضوع مل جائے جسے ہم فوراً اپنے کیمروں میں قید کر کے ریٹنگ اور جعلی شہرت حاصل کر سکیں۔ ہماری ریٹنگ اور شہرت میں اصافہ ہونا چاہئے اس سے کسی کی ساکھ متاثر ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :