احتجاجی گدھے

بدھ 26 جنوری 2022

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

ملک کو آزاد ہوئے تقریباً ستر سال سے زائد ہو گئے ہیں اور ان ستر سالوں میں قوم نے جو سیکھا ہے وہ احتجاج ہے۔ کبھی پانی نہ ملنے پر احتجاج اور کبھی روٹی نہ ملنے پر احتجاج، کبھی بے روزگاری کا رونا رونے کیلئے احتجاج کیا جاتا ہے۔ مگر ہمیشہ ان احتجاجوں کا نتیجہ بے سود ہی رہا ہے ہر جائز و ناجائز احتجاج کو سیاسی رنگ دے کر منڈا منڈا ڈال دیا جاتا ہے۔

حالانکہ احتجاج جمہوریت کا حسن اور عوام کا حق ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں تقریباً ہر احتجاج بے سود اور بے فائدہ ہی رہا ہے۔ کوئی احتجاج کو احتجاج سمجھتا ہی نہیں بلکہ احتجاج کسی مندر کے گھنٹے کی مانند ہو چکا ہے کہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی طبقہ اٹھتا ہے اور یہ گھنٹا بجا کر چلا جاتا ہے۔ اسی لیے عوام بھی احتجاج کے نت نئے طریقے اپنا کر احتجاج ریکارڈ کراتی ہے اور ان طریقوں میں عوام الناس کے علاوہ کئی سیاسی جماعتیں بھی نئے طریقے ایجاد کر کے احتجاج کے نام پر اپنا شغل میلہ لگاتی ہیں۔

(جاری ہے)

آجکل بھی ملک احتجاجی شغل میلوں کی زد میں ہے یعنی اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف احتجاج کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ ایک ایسا ہی احتجاج مہنگائی کے خلاف شیخو پورہ شہر میں چند دن پہلے ہوا جس میں حکومت کے خلاف کئی گدھے سراپا احتجاج ہوئے، احتجاج کی سربراہی ایک لیگی رہنما کر رہے تھے اور لیگی کارکنوں کے ساتھ ساتھ گدھوں نے بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا۔

قارئین کو یہ مذاق لگ رہا ہو گا مگر یہ حقیقت ہے اس سے پہلے بھی مہنگائی کے خلاف گدھا گاڑیوں کی ریلی نکالی اور اس بار تو گدھے ہی احتجاج میں شامل کر لیے گئے، ان گدھوں کے جسموں پر وزیراعظم عمران خان کی تصاویر چسپاں کر رکھی تھیں اور احتجاجی ٹولہ بے زبان جانوروں کے آگے چیخ چیخ کر حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ احتجاج میں شامل لوگ ان گدھوں کو کوئی اس طرف کھینچ رہا تھا اور کوئی دوسری طرف کھینچ رہا تھا۔

اور گدھے بیچارے پریشان تھے کہ گدھے تو ہم ہیں ان کو کیا ہو گیا ہے؟ اس بے زبان جانور کو کئی عقل مند انسان اور اشرف المخلوقات کا لقب پانے والے کئی ابن آدم صرف اس وجہ سے زد و کوب بھی کرتے رہے کیونکہ اس پر عمران خان کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ گدھوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا اور نہ ہی گدھوں کو عقل ہوتی ہے، شاید اُس دن گدھوں کو بھی اس بات کا علم ہو گیا ہو۔

قوم کا ماننا ہے اور دستور پاکستان بھی یہی کہتا ہے کہ سیاست میں گدھوں کی شمولیت نہیں ہونی چاہئے پھر چاہے وہ الیکشن کا عمل ہو یا پھر حکومت کے خلاف کوئی احتجاج ہو۔ گدھا چونکہ ایک جانور ہے اور یہ جانور مالک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور جس نے اس ماڈرن دور بھی گدھا رکھا ہوا ہے یقیناً وہ حالات سے مجبور ہے اور اپنا گدھا کہیں بھی مفت نہیں بھیجتا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گدھے احتجاج میں مفت نہیں جاتے۔ جانوروں کو سیاست سے بالاتر رکھنا چاہیے کیونکہ وہ بے زبان ہوتے ہیں اور ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا یہ ہم لوگ ہی ہیں جو نظریات میں بہہ کر جانوروں سے بدتر ہو جاتے ہیں جبکہ جانور تو ہمارے رویوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ہمیں سیاست میں اخلاقیات سے گرتے ہوئے جانوروں کو استعمال کرتے ہوئے ان پر اپنے سیاسی مخالفین تصاویر لگانا اور انہیں زد و کوب کرنا کہاں کی انسانیت ہے، یہ تو انسانیت کی بھی توہین ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :