تنقید کا کیڑا

پیر 14 دسمبر 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

ہدایت اللہ کی طرف سے ہے یہ کسی کو بھی کبھی بھی نصیب ہو سکتی ہے لیکن یہ قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے۔مگر ان لوگوں کی دنیا اور آخرت میں بربادی ہے جو ہدایت پانے والوں اور توبہ کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ، انہیں ماضی بد کے طعنے دیتے ہیں اور ان کے نیک رویے پر طنز کر کے ہنستے ہیں ۔جبکہ اللہ نے قرآن پاک میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ جب کوئی گناہ کرے تو اسے ایذا پہنچاوٴلیکن جب وہ توبہ کر لے تو اس کا پیچھا چھوڑ دو۔

سورة نساء کی اس آیت سے یہ حکم واضح ہو گیا کہ جب تک کوئی شخص برائی میں مبتلا ہو اسے برا کہنا جائز ہے لیکن جب توبہ کر لے تو اسے برا کہنا خدا کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کے مترادف ہے ۔ہمارا قومی اور اخلاقی المیہ یہ ہے کہ ہم دانستہ طور پر اس حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہے ہیں پچھلے دنوں ایک بھارتی مسلم اداکارہ نے شوبز کی دنیا کو خیرباد کہہ کر الاعلانیہ توبہ کا ارادہ ظاہر کیا اور ایک عالم دین مفتی سے شادی کر کے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں ۔

(جاری ہے)

تو ہماری اخلاقی قدریں زمین پر دھڑام گر گئیں کوئی مفتی صاحب پر چٹکلے بنانے لگا تو کوئی اداکارہ کے ماضی پر روشنی ڈالنے لگا ۔اداکارہ پر بھی تنقید بنتی نہیں لیکن چلو وہ سمجھ آتی ہے کہ ماضی کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر مفتی صاحب پر صرف اس وجہ سے جملے کسے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے منہ پر داڑھی ہے اور وہ دین سے منسلک ہیں ۔ اگراداکارہ کا شوہر کوئی ڈاکٹر ، انجینئریا کوئی اداکار ہی ہوتا تو یوں مذاق نہ اڑایا جاتا اب چونکہ اداکارہ کا شوہر ایک مولوی ہے اس لئے ہر طبقہ ان کا مذاق اڑا رہا ہے ۔

مجھے حیرت تب ہوئی جب اپنے ملک کے چند مفتی حضرات کو بھی اپنی تقریروں اور خطبوں میں اس جوڑے پر مزاحیہ جملے کستے دیکھا ،کوئی جاہل اور لاعلم شخص مذاق اڑائے تو اس کی ذہنی کیفیت سمجھی جا سکتی ہے لیکن جب کوئی اہل علم اور مفتی منبر پر بیٹھ کر طنز کرے اور مذاق اڑائے تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے اور ہماری اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔فلموں میں کام کرنے والی اور فحش سین فلمانے والی کسی عورت کو کوئی شخص اگر راہ راست پر لے آئے تو اس سے نکاح کا سب سے زیادہ حق دار وہی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک جائز عمل ہے اور کسی عورت کو عزت دینے کیلئے یہ ایک مقدس رشتہ ہے اس پر بلاوجہ تنقید کرنا جہالت ہے وہ کوئی بھی کرے جہالت ہی رہے گی ۔

ہمارا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ جب تک کوئی برائی میں مبتلا رہے تو اس پر اس بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ برا ہے اور جب وہ برائی سے توبہ کر لے تو اس وجہ سے تنقیدی نشتر چلائے جاتے ہیں کہ لو اب یہ حاجی بن گیا ہے ۔رابی پیرزادہ کے معاملے میں بھی ہمارا قومی رویہ ایسا ہی منافقانہ تھا حالانکہ اس میں بھی رابی قصور اتنا نہیں تھا جتنی اس پر تنقید کی گئی اور توبہ کر کے راہ راست پر آنے کے باوجود تنقید کی جاتی رہی جو ابھی تک جاری ہے ،وہ اللہ کے نام لکھ کر شیئر کرتی ہے اور نیچے کمنٹس میں اس عمل پر بھی تنقید کی جاتی ہے ۔

پتہ نہیں ہماری سوچ کا میعار کب بدلے گا ، ہم دوسروں پر تنقید کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہیں اور ہم بھی گناہ کرتے ہیں ، جن پر ہم تنقید کر رہے ہیں ان کے ایک گناہ سے پردہ اٹھا تو وہ راہ راست پر آگئے مگر ہمارے تو سارے گناہ ابھی تک چھپے ہوئے ہیں اور دوسروں سے نصیحت پکڑنے کی بجائے ان کا مذاق اڑا کر اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں ۔

ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ اگر اللہ ہمارے گناہوں سے پردہ اٹھا دے تو یہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم توبہ کرنے اور سرعام معافیاں مانگنے کے باوجود لوگوں کی بے جا تنقید برداشت کر سکیں گے ۔ہمیں اب اس تنقید کے کیڑے کو مار دینا چاہئے جو صرف دوسروں کی عزت اچھالنے پر مجبور کرتا ہے ،ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :