
محکمہ ہیومن رائٹس کمیشن کی خاتون شکنی! ذمہ دار کون؟
جمعہ 11 مارچ 2016

حافظ ذوہیب طیب
خواتین کا عالمی دن منانے والے ان جیسے جعلی اور بے غیرت لوگوں کے حوالے سے ابھی کل ہی کسی نے وٹس ایپ کے ذریعے بہت خوبصورت پیغام بھیجا ہے جو آپ کے ساتھ بھی شئیر کر رہا ہوں ۔”اس عورت کو بھی یاد رکھنا جس نے خروٹ آباد میں مرتے ہوئے انصاف مانگنے کے لئے آسمان کی طرف آخری بار انگلی اٹھائی۔
(جاری ہے)
اور اس شمائلہ کو بھی یاد رکھنا جس نے ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں اپنے شوہر فہیم کی موت پر انصاف مانگتے مانگتے خود موت کو اپنے گلے لگا لیا۔
اور وقت ملے تو عافیہ صدیقی کی آخری پیشی کی کہانی بھی پڑھنا، کہ اُس نے امریکی عدالت میں آخری الفاظ کیا کہے؟جن کے بعد وہ بار با ر بلانے پر بھی نہ بولی۔اور ہاں! ان ماؤں کو بھی یاد کر لینا جو ایک دہائی تک اپنے بچوں کو ڈرون کی آوازوں والے آسمان کے نیچے سلاتی تھیں تو ان کے دل کیسے کانپتے تھے۔اور ان ماؤں کو بھی جنہوں نے جیٹ طیاروں کی بمباری کے بعد اپنے جگر کے لعلوں کے ٹکڑوں پر وہ بین کیا تھا جس کی آواز وزیرستان سے باہر نہیں سنی گئی۔اس ماں کو بھی یاد رکھنا جس کے گمشدہ بیٹے سالوں بعد عدالت میں اس حالت میں پیش ہوتے ہیں کہ کئی عرصے اپنے بچوں کی بازیابی کی جنگ لڑنے والی ان پڑھ لیکن بہادر ماں،دل ہار کراُس دن قبر میں جا پڑی“ ۔کتنا کچھ ہے لکھنے کو۔۔۔لیکن بے حس معاشرے میں لفظ بھی بے معنی ہوجا تے ہیں ۔قارئین ! چھوڑیں اس فضول بحث میں کیا پڑا ہے ۔ آخر یہ کونسے انسان ہیں جو ہم ان کی بات کریں ۔ یہ تو دہشت گرد ہیں ۔ ڈرون، امریکی جیٹ طیاروں اور اپنوں کی بے حسی سے مر نا تو ان کے نصیب میں ہے ۔ میں واپس اپنے موضو ع پر آتا ہوں کہ اس دفعہ یوم خواتین کو حکومتی سطح پر بھی کا فی پذیرائی ملی جس کامنہ بولتا ثبوت وزیر اعظم اور بالخصوص وزیر اعلیٰ پنجاب کے بلند و بالا دعوے تھے جس کا انہوں نے اپنے خطاب میں بھی اظہار فر مایا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت نے خواتین کو با اختیار بنا نے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے انقلابی نوعیت کے اقدا مات کئے ہیں۔
قارئین محترم !میں ایک طرف تو وزیر اعلیٰ پنجاب کی یہ تقریر سن رہا تھا جبکہ دوسری جانب اسلا م آبادمیں ہیومن رائٹس کمیشن کے زیر اہتما م چلنے والے ہاسٹل میں رہائش پذیر خواتین کا خط نما نوحہ پڑھ رہا تھا اوراس سوال کاجواب تلاش کر رہا تھا کہ آخر کون سچا ہے؟ اس خط کے کچھ پوائنٹس اپنے قارئین کی نظر بھی کر رہاہوں کہ شاید آپ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں میری کچھ مدد کر سکیں۔
ورکنگ ویمن ہاسٹل7-1 G/ جس کانام تبدیل کر کے اب فیڈل ورکنگ وویمن ہاسٹل رکھ دیا گیا ہے جو 48کمروں پر مشتمل ہے جس میں ہر کمرہ قانون کے مطابق صرف ایک خاتون کو الاٹ کیا جانا تھا لیکن اب اس میں تقریباََ 80خواتین جو مختلف سر کاری، نیم سرکاری اور این۔ جی ۔او وغیرہ میں کام کرتی ہیں رہائش پذیر ہیں ۔ عدم توجہ کی بنا ء پر بلڈنگ کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے او ر مر مت اور بحالی سے مکمل چشم پو شی کی جارہی ہے۔ جبکہ 2007سے ہاسٹل انتظامیہ کا رویہ ہاسٹل میں رہائش پذیر خواتین کے ساتھ انتہائی بے رحم اور ہتک آمیز ہو چکا ہے ۔ خواتین کی حفاظت اور انہیں بہتر سہولیات پہنچانے کی بجائے انتظامیہ انتقامی کاروائیوں میں مصروف عمل ہے
ہاسٹل انتظامیہ نے صرف ایک کام کا بیڑہ اٹھا یاہوا ہے ۔ ہر کچھ ماہ بعد یہاں رہائش پذیر خواتین کو دھمکی آمیز خطوط ارسال کر دئیے جاتے ہیں جس میں بجلی و گیس کے انتہائی نا منا سب بلوں کے ساتھ کرایوں میں 500گنا اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ ہاسٹل کے کمروں میں کئی گنا اضافے کے ساتھ بجلی کا بل 1500روپے فی کس جبکہ سوئی گیس کا بل بھی 1500روپے فی کس وصول کیا جا تا ہے یعنی ایک کمرے سے 6000روپے کی ”ٹھگی “ لگائی جا رہی ہے ۔ A.Cچار جز کی مد میں6000روپے علیحدہ سے وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سردیوں میں گیس کی بندش کا یہ حال تھا کہ یہ خواتین ٹھنڈے چولہے کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئی تھیں ۔ یاد رہے یہاں رہائش پذیر خواتین کی اکثریت نچلے گریڈز اور15000سے 20000تنخواہ لینے والوں پر مشتمل ہے ۔ ایسے حالات میں وہ کرایہ اور بلوں کی مد میں18000روپے ماہانہ ہاسٹل انتظامیہ کو کیسے ادا ء کر سکتی ہیں؟
قارئین ! ہیومن رائٹس کمیشن اور اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے تحت چلنے والے ہاسٹل میں رہائش پذیر یہ خواتین اپنے حقوق کی خاطروزیر اعلیٰ پنجاب کے ماتحت افسران کے دفتروں کا طواف کرتے کرتے تھک گئی ہیں لیکن کوئی ان کا پر سان حال نہیں ۔کیا ہی اچھا ہو کہ حقوق نسواں پر بل پاس کر نے والی اسمبلی کے ارکان، یہاں کے وزیر اعلیٰ اور ان کے بڑے بھائی اپنی ماتحت ،طاقت کے نشے میں مست ،بیورو کریسی کی طرف سے خواتین کو تضحیک اور ذلت کا نشانہ بنا نے پر ایکشن لیتے حقیقی معنوں میں عورت کو با وقار و با اختیار بنا نے کی کوشش کرتے ہوئے پہلی ہی فرصت میں گھروں سے کوسوں دور ،اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کی سعی میں مصروف ورکنگ وویمن ہاسٹل میں رہائش پذیر خواتین کے حقوق پامال کر نے والے ذمہ داران کو قرار واقعی سزادیں اور یہاں کی انتظامیہ کو پابند کریں گے کہ فی الفور فی کمرہ ماہانہ کرایہ کی رقم میں کمی کرتے ہوئے بلوں کی مد میں بھی جائز وصول کی جائے اور اگر اسٹبلشمنٹ ڈویژن اپنی ذمہ داریاں پوری کر نے سے قاصر ہے تو یہ ہاسٹل گورنمنٹ کے کسی اور محکمے کے سپرد کر دیا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.