
فاؤنٹین ہاؤس :دکھ کے ماروں کی امان گاہ
بدھ 22 جون 2016

حافظ ذوہیب طیب
(جاری ہے)
قارئین !فاؤنٹین ہاوس کی چار دیواری میں بسنے والے ان معصوم لوگوں کے ساتھ بھی خوشیوں کے ان جلادوں نے کچھ ایسا ہی سلوک رواء رکھا جس کی وجہ سے اچھے بھلے، ہنستے مسکراتے اور اپنی زندگی کو بخوشی بسر کرتے یہ لوگوں پر زندگی اتنی تنگ کر دی گئی کہ جس کے نتیجے میں کوئی ڈپریشن کے عذاب میں مبتلا ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھا تو کوئی زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہو چکا۔
فاؤنٹین ہاؤس 1971سے اب تک 45000سے زائد زہنی امراض میں مبتلا افراد کی معاشرے میں دوبارہ بحالی کے فرائض انجام دے چکا ہے ۔اس وقت 550سے زائد ذہنی مریض بشمول 100خواتین فاؤنٹین ہاؤس ( لاہور، فاروق آباد ، سرگودھا )میں زیر علاج ہیں۔جن میں طالب علم، وکلاء،میڈیکل سٹوڈنٹس،بزنس میں، حکومتی عہدیدار اور فنکار بھی شامل ہیں۔350، ذہنی پسماندہ بچوں کو تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت دی جارہی ہے ۔ جبکہ440خواجہ سرا ماہانہ زکوٰة فنڈ سے علاج ووظیفہ حاصل کرتے ہیں۔
قارئین !کئی سالوں سے فاؤنٹین ہاوس میں مکین ہر فرد کی ایک ایسی طویل اور غمناک داستان ہے جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ ایک خاتون جس کا شوہرریٹائرڈاور بیٹا حاضر سروس جج ہے ، کتنے سال ہوتے ہیں کہ روز صبح چوکیدار سے سوال کرتی ہے کہ میرا بیٹا تو نہیں آیا؟ ناں میں جواب سن کر واپس اپنے کمرے کی جانب لوٹ جاتی ہے لیکن امیدکی ایسی دولت اس کو نصیب ہے جو کئی عقل والوں کومیسر بھلا کہاں؟ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ خیراتی اداروں کی نسبت فاؤنٹین ہاؤس میں ایسے لوگوں کو کمال محبت اور شفقت کے ساتھ رکھا جا تا ہے ۔ بلکہ ایگزیگٹو کمیٹی کے بابا غیاث الدین کا کئی سالوں سے یہ معمول ہے کہ وہ اپنوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ذہنیامراض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ صبح کا ناشتہ کرتے ہیں ۔
خواجہ سراء پروگرام کی کامیابی بھی ڈاکٹر امجد ثاقب کے اسی جذبے کی کامیابی ہے ویسے ہی جیسے اخوت، اخوت یونیورسٹی اور کالج کے خوابوں کی تکمیل ہے ۔مجھے کچھ روز قبل فاؤنٹین ہاؤس میں خواجہ سرا ؤں کے اعزاز میں منعقدہ افطار ی کے ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں معاشرے کی دھتکاری، انسان نما اس مخلوق کوسینے سے لگا کر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ کھانا کھلاتے ہوئے میں حیرت میں ڈوب گیا کہ وہ لوگ جو ہیپاٹائیٹس ، ایڈز اور دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں ، ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا، ملنا اور ان کے دکھ درد بانٹنا یہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا ہی اعزاز ہے۔
قارئین کرام !معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ہر 10افراد میں سے ایک فرد زندگی میں ایک بار کسی نہ کسی مرض سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی امراض کے اسباب ہر انسان کے دماغ میں کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتے ہیں ۔جن پر یہ اسباب مختلف وجوہات کی بنا ء پر غالب آجاتے ہیں وہ اس مرض سے بہت جلد مغلوب ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح وہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایک صحت مند انسان کو ذہنی مرض میں مبتلا ہو نے کے لئے صرف 30سیکنڈ در کار ہوتے ہیں ۔آئیے ! ذہنی امراض میں مبتلا ان لوگوں ،جنہیں ان کے اپنوں نے بے یار ومددگار چھوڑ دیا ہے کہ لئے معاون بنیں اور ماہ مقدس کی ان ساعتوں میں اپنے مال میں سے کچھ رقم ان کے لئے مختص کریں۔ خدا نخواستہ ، اگر کل ہماری زندگی میں بھی یہ 30سیکنڈ آجائیں تو کم از کم ہم نے کچھ تو زاد راہ اپنے لئے جمع کیا ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.