امید کی کوئی بھی راہ روشن نہیں؟

منگل 4 جولائی 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے مثبت سوچ کے حامل لوگوں کی رفاقت عطا کی جو کسی بھی منفی چیز سے اس کا مثبت پہلو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یوں مجھ جیسے شخص کو زیادہ دیر منفی سوچوں کا شکار نہیں ہو نے دیتے ۔میرے ان دوستوں میں کئی ایسے ہیں جو ولایت کے درجے پر فائز ہیں اور ھر وقت اچھا سوچنے اور اچھا بولنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔

ان کے نزدیک مایوسی شیطان کا ہتھیار ہے جو انسان کو رحمان کی قربت سے دور کر کے شیطان کے قریب لے آتی ہے اور یوں وہ کئی طرح کی مایوسیوں کا شکارہو کر اندیشوں کی کانٹے دار شاہراہ کا مسافر بن جاتاہے ۔لیکن ان دنوں طاقتوروں کی ایسی ایسی ظالمانہ داستانیں سننے کو مل رہی ہیں کہ امید کی تمام روشن راہوں پر ناامیدی کی کیچڑ سے لتھڑے ایسے بڑے بڑے کھڈے پڑ رہے ہیں کہ جنہیں صاف کرنا دور کی بات ،ان پر چلنے سے انسان کے قدم پھسل جائیں اور پھر امید کی تما م نصیحتیں ، تما م باتیں اور تما م دعوے، مایوسی کی کیچڑ کے کھڈوں میں ہی دفن ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


قارئین کرام ! حالیہ دنوں میں، بد نام زمانہ عالمی دہشت گرد جس نے ہمارے ملک میں کئی بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن بالخصوص لاہور کے علاقے مزنگ میں اپنی انا کو تسکین پہنچانے کی خاطر دو معصوم لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر نے والے ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے افرا تفری مچا کر رکھ دی ہے ۔ بقول اس کے، قومی سلامتی کے محافظ تما م ذمہ داروں نے امریکی حکم پر”یس بوس“ کی پرانی روایت کو زندہ وجاوید رکھتے ہوئے ، پاکستانیوں کے خون پر چپ سادھ کر بلکہ لواحقین کو ڈرا دھمکا کر ، اپنے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ، نہ صرف معصوم لوگوں کے خون کا سودا کیا بلکہ بہیمانہ طریقے سے اپنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے سی۔

آئی۔اے ایجنٹ کو پورے پروٹوکول کے ساتھ با عزت بری کرانے کی آخری حد تک اس کے ساتھ رہے ۔
ابھی یہ واقعہ قصہ پارینہ نہ ہو اتھا کہ اپنے ایک صحافی دوست کی رپورٹ پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے پنجاب کی سستی روٹی سکیم کے نام سے ہوے والی کرپشن سے پردہ اٹھایا۔ رپورٹ کے مطابق سستی روٹی کا سفر بند ہوئے مدت ہوئی لیکن اس کا بجٹ آج بھی موجود ہے جو افسران کے اکاؤنٹس میں جمع ہو رہا ہے ۔

جبکہ سستی روٹی سکیم کی مد میں سر کاری خزانے سے دفاتر کے لئے لاکھوں روپے کی ماہانہ ادائیگیاں بھی جاری ہیں۔2009میں شروع ہونے والا سستی روٹی سکیم کا یہ پروجیکٹ شروع ہونے کے ساتھ ہی افسران کی نالائقیوں کی زد میںآ گیا لیکن اس کے باوجود بھی جعلی تنور بنا کر اور ان کے خاتمے کے بعد اب تک انہیں آٹا سپلائی کاکام جاری ہے ۔اس مد میں70ارب 92کروڑ روپے کے آڈٹ پیروں کاجواب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جمع نہ کرا یا جا سکاہے ۔

جبکہ ابھی تک سکیم کے ڈی۔جی ، 4،افسران سمیت 14ملازمین مزے لوٹ رہے ہیں
قارئین !کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم ابھی تک اداروں میں غریب عوام کے نام پر کی جانے والی کرپشن کی روک تھام اور اس کے سد باب کے لئے کسی بھی محکمے کو مکمل طور پر فعال نہ کر سکے ۔ اینٹی کرپشن و نیب سمیت تما م ادارے صرف حکمرانوں کی خوشامدوں میں مصروف عمل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا زور بھی بے چارے چھوٹے لوگوں پر چلتا ہے ۔

بڑوں کے سامنے ان کی حیثیت سے اندازہ اس خبر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سند ھ اسمبلی میں نیب آرڈیننس 1999کے اطلاق کو ختم کرنے کا بل پیش کر دیا گیا ہے۔جس کے بعد نیب ، سندھ حکومت یا اس کے ذیلی اداروں میں کرپشن سے متعلق کسی معاملے میں تحقیقات نہیں کر سکے گی اور اس بل کے مسودے کے مطابق اس کا اطلاق پورے سندھ میں فوری طور پر ہو گا۔ سندھ حکومت جہاں گندگی کے ناقص انتظامات، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کرپشن کی دوڑ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی وہاں پورے سندھ میں آئی۔

جی سندھ کے روپ میں کام کرنے والے فرد واحد کو بھی اس قدر ذہنی اذیت کا شکار کیا ہے ہو ا ہے کہ جس کی مثال ان سے ایس،ایس،پی لیول کی پوسٹنگ وٹرانسفر کے تما م اختیارات لینا ہے ۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ سندھ حکومت کرپشن اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ نیب منسوخی بل بھی صرف 96سے زائد عالمی شہرت یافتہ کرپٹ افراد کو بچانے کے لئے لایا گیا ہے ۔
قارئین محترم !جے۔

آئی۔ٹی کے اندیشے کے مطابق سیکورٹیز اینڈ ایکسنیچ کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی)کی جانب سے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کے الزامات بھی حقیقت میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔ ایس ای سی پی کی ڈائریکٹر انفورسٹمنٹ ماہین فاطمہ نے اکشاف کیا ہے کہ ادارے کے چئیرمین ظفر الحق حجازی کی جانب سے مرضی کا بیان لینے کیلئے ان پر دبا ؤ ڈالا گیاجبکہ چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ردو بدل سمیت جے آئی ٹی کے روئیے کے خلاف بیان دینے پربھی ان کی طرف سے اکسایا گیا۔

متعلقہ چئیرمین دھمکیوں کی انتہا کو کراس کرتے ہوئے یہ تک کہہ بیٹھے کہ آئندہ بھی حکومت ن لیگ کی ہوگی وہ آپ سے حساب لیں گے
آپ اندازہ لگائیں کہ جب اداروں کے سر براہ بے ایمانی کے اس اخلاقی حد کو بھی پار کر جائیں، اُس ملک کے باقی لوگوں کا حال کیا ہو گا؟یقینا یہی حال ہو گا جو ہو رہا ہے ۔پھر جس کا دل چاہے گا ملک کے اثاثوں کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے لوٹے گا اور پھر بھی عوام کی حمایتیں حاصل کر کے معصوم بن جائے گا۔ ایسے حالات میں بہتری کی امید لگانا ،میرے خیال میں بے کار ثابت ہو گی۔ کیونکہ جب ہر سو ظالموں کے ہاتھوں فیصلے ہو رہے ہونگے تو وہاں صرف مایوی اور نا امیدی کے اندھیرے ہی ڈیرے ڈالے ہو نگے وہاں امید کی کوئی بھی راہ روشن دکھائی نہ دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :