لاہور پولیس کے حکام حقیقی معنوں میں اہلیان شہر کو آسانیاں فراہم کرنے کے مشن پر گامزن

پیر 20 مئی 2019

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے پولیس کلچر اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے نام پر خود محکمہ پولیس کے افسران نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے جوخود ہی ان کے ہاتھوں خاک میں مل کر رہ گئے ہیں ۔ یہ صرف اپنی اپنی سیٹوں کو پکا کر نے اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے نام پر عوام کو بیو قوف بنا نے میں مصروف عمل رہے جبکہ تھانہ کلچر اور پولیس کلچر میں تبدیلی کا سالوں پرانا خواب صرف خواب ہی تک محدود رہا ہے ۔

اس ضمن میں اربوں روپے کا بجٹ صرف کاغذی تشہیر تک یا افسران کے ذاتی اخراجات پر صرف ہوتا رہا ۔ کئی ایک ایماندار اور متحرک افسران جو اس سلسلے میں پولیس کو میسر آئے ، ان کے جانے کے بعد ان کے کاموں کو مزید آگے چلنے نہ دیا گیا لہذا معاملات بجائے سنورنے کے بگڑنے شروع ہو گئے ۔

(جاری ہے)

پولیس افسران بھی سیاسی آقاؤں کی طرح ”وقت ٹپاؤ پالیسی“ پر گامزن رہے اور یوں حالات اس نہج تک آپہنچے ہیں کہ پولیس اور تھانہ کلچر تبدیل کر نے کا نعرہ لگانے والوں پر اب صرف شک کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔


بھلا ہو آئی ۔ جی پنجاب ڈاکٹر عارف نواز کا جنہوں نے سابقہ افسران کے تھانہ کلچر اور پولیس کلچر کی تبدیلی کا نعرہ لگانے کی بجائے حقیقی معنوں میں پولیس کی کردار سازی اور ان کی اخلاقی تربیت کا فیصلہ کیا ، انہیں وسائل فراہم کئے گئے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کیا گیا ، ماڈل تھانے بنا کر یہاں اسٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگز اور سہولیات مہیا کی گئی جس کی بدولت پھٹی پرانی ترپال کے نیچے ٹوٹی پھوٹی چار پائیوں پر سوانے والے سپاہی کو اب بہترین کمرہ اور بستر سمیت دور جدید کی ہر سہولت فراہم کی گئی ہے ۔

اب پولیس کا پیسہ نعروں پر خرچ ہونے کی بجائے پولیس پر خرچ ہو رہا ہے اور ان تمام انقلابی کاموں کے نتیجے میں امید کی جا رہی ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کسی بھی فورس کی سر براہی کر نے والے افسر کی قابلیت ، تجربہ اور حالات و معاملات کو بہتر بنانے کی اہلیت بھی فورس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔

چنانچہ ڈاکٹر عارف نواز جو خود ایک قابل اور ایماندار پولیس افسر ہیں انہوں نے صوبائی دار الحکومت کے لئے ایسے افسران کا چناؤ کیا ہے جو اپنے اچھے کاموں اور عوام و پولیس کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کر نے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ڈی۔آئی۔جی آپریشنز اشفاق احمد خان ایم۔ایس۔ سی، ایم ۔فل اکنامکس ہیں اور فیصل آباد، گوجرانوالہ ، بہاولپورسمیت بڑے شہروں میں اپنی بہترین صلاحیتوں کی بدولت چھوٹے سے عرصے میں بڑے بڑے کام سر انجام دے چکے ہیں ۔

ان کے نزدیک تھانوں میں انصاف کی بر وقت فراہمی اولین ترجیح ہے جبکہیہ ان کی خواہش ہے کہ شہر لاہور کی خوبصورتی کو داغ دار بنانے والے جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالنے اور سٹریٹ کرائم پر قابو پانے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ایس۔ایس۔پی آپریشنز اسماعیل الرحمان کھاڑک کا شمار بھی ایسے ہی افسروں میں کیا جا تا ہے جو تما م تر پریشر کے باوجود بھی وہی کام کرتے ہیں جوقانون کے مطابق ہو تا ہے ۔

ان دونوں افسران کی تعیناتی کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ واقعی لاہور پولیس میں تبدیلی آچکی ہے ۔ دفاتر میں آنے والے تما م سائلین کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے بڑی عمدگی کے ساتھ ان کے مسائل سنے جا رہے ہیں اور موقع پر ہی متعلقہ افسران کو احکامات جاری کرتے ہوئے ان کی داد رسی کا حکم صادر کیا جا رہا ہے ۔ لاہور پولیس کی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی ڈی۔

آئی۔جی اور ایس۔ایس۔پی خود ذاتی طور پر مسجدوں ، امام بارگاہوں اور عبادت گاہوں کا خود وزٹ کر رہے ہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر اتوار بازاروں ، حساس مقامات پر جاکر خود سارے معاملات دیکھے جا رہے ہیں ۔ اس کے علاو ہ شہر میں ہونے والے کسی بھی معمولی واقعے کی رپورٹ متعلقہ ڈی۔ایس۔پی اور ایس۔پی سے لی جا رہی ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ دنوں کوٹ لکھپت میں ڈولفن فورس اور جرائم پیشہ افراد کی فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والی خاتون کے واقعے پر بھی اشفاق احمد خان اور اسماعیل الرحمن کھاڑک خود ہسپتال گئے اور خود واقعے کی انکوائری کرتے رہے ۔


ڈی۔آئی۔جی آپریشنز لاہور اشفاق احمد خان اور ایس۔ایس۔پی آپریشنز اسماعیل الرحمٰن کھاڑک کی بہترین صلاحیتوں ، ٹیم ورک اور خود فیلڈ میں جا کر کام کر نے کی وجہ سے جہاں پولیس کا مورال بلند ہوا ہے وہاں اہلیان لاہور کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں کہ افسران اب اپنے ٹھنڈے کمروں سے نکل کر عوام کے درمیان ہوتے ہیں ، ان کے معاملات میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فی الفور ان کے مسائل کو حل کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر شہر میں جرائم کی وارداتوں میں خاظر خواہ کمی دیکھنے کو ملی ہے ۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگر ان افسران کو ان کے مطابق کام کر نے دیا گیا تو کچھ ہی مہینوں میں شہر لاہور امن اورا ٓشتی کا گہوارہ بن جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :