جناب وزیر اعظم ! ایسی تھی مدینہ کی ریاست

بدھ 3 جولائی 2019

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

صرف الیکشن کے دوران ہی نہیں بلکہ پچھلے بائیس سالوں سے عمران خان اپنی گفتگو میں مدینہ کی ریاست کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے نظرآتے تھے کہ اگر مجھے اقتدار ملا تو ہم پاکستان کو مدینہ کی ریاست کے طرز پر چلائیں گے ۔ بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کا ریاست مدینہ کے حوالے سے ایک خاص قلبی تعلق ہے اوراسی تعلق کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے ریاست مدینہ کی تاریخ کو بڑی گہری نظر سے پڑھا ہوا ہے ۔

الیکشنوں کے دوران اور الیکشنوں میں کامیابی کے بعد عمران خان کا پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کا نعرہ مزید توانا ہوتا رہا اور وہ اپنی ہر تقریر میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہم جلد ہی بالخصوص غریبوں اور ناداروں کو ریاست مدینہ کی طرز پر سہولیات دیں گے۔

(جاری ہے)

بے گھروں کے لئے چگت، بے روزگارون کے لئے روزگار اور بیماروں کے لئے مفت علاج کا بہترین بندو بست ہو گا ۔


لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ سطور لکھنی پڑ رہی ہیں کہ نو ماہ سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے غریبوں ، ناداروں اور مفلوک الحالوں کے لئے کوئی ایک ایسا بھی منظم پروجیکٹ شروع نہ کیا جا سکا جو واقعی ریاست مدینہ کی عکاسی کرتا ہو۔ بے گھروں کو گھر فراہم کر نے کا منصوبہ ہو یا بے روزگاروں کو روزگار، اس طویل منصوبوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر صرف بیمار کو بہترین اور مفت علاج ہی میسر آجاتا تو یہ بڑی بات تھی ۔

لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس والا طبقہ ریاست مدینہ کے نام سے خوف کھاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ غریبوں اور لاچاروں کے زندگیوں میں مزید عذاب بر پا کر نا چاہتے ہیں ۔ ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، لاہور سمیت صوبے اور پھر ملک میں تمام سر کاری ہسپتالوں میں علاج کی بدترین سہولیات اور جہاں غریب کا علاج تو نہیں کیا جاتا اس کی دل آزاری اور عزت نفس کو پامال ضرور کیا جا تاہے ۔


جناب وزیر اعظم ! زیادہ نہیں میں صرف ریاست مدینہ کے ایک واقعے کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ کے دور میں ایک بدو آپ سے ملنے مدینے کو چلا، مدینے کے پاس پہنچا تو آدھی رات ہو چکی تھی، ساتھ میں حاملہ بیوی تھی تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس ہی خیمہ لگا لیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا، بیوی کا وقت قریب تھا تو وہ درد سے کراہنے لگی، حضرت عمر فاروق  اپنے روز کے گشت پر تھے اور ساتھ میں ایک غلام تھا، جب آپ نے دیکھا کے دور شہر کی حدود کے پاس آگ جل رہی ہے اور خیمہ لگا ہوا ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا کہ معلوم کرو کون ہے؟ جب پوچھاگیا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیوں بتاؤں، آپ خود تشریف لے گئے اور سوال کیا کہ اندر سے کراہنے کی آواز آتی ہے کوئی درد سے چیخ رہا ہے بتاؤ بات کیا ہے ؟بدو بولا:” میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینہ آیا ہوں میں غریب ہوں اور صبح مل کے چلا جاؤں گا، رات زیادہ ہے تو خیمہ لگایا ہے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، بیوی امید سے ہے اور وقت قریب آن پہنچا ہے“۔

آپ  واپس پلٹے اور اسے کہا تم یہی ٹہرو میں واپس آتا ہوں ، آپ اپنے گھر گئے اور فوراً اپنی زوجہ محترمہ سے مخاطب ہوئے کہا کہ اگر تمہیں بہت بڑا اجر مل رہا ہو تو اسے حاصل کرو گی؟ زوجہ محترمہ نے جواب دیاکیوں نہیں، آپ نے فرمایا چلو میرے دوست کی بیوی حاملہ ہے،وقت قریب ہے اور جو سامان پکڑنا ہے ساتھ لے لو،آپ کی زوجہ محترمہ نے گھی اور دانے پکڑ ے ور آپ کو لکڑیاں پکڑنے کا کہا آپ نے لکڑیاں اپنے اوپر لادھ لیں۔


موقع پر پہنچے ، زوجہ محترمہ خیمے میں داخل ہوئین اور کطھ ہی دیر بعدجب اندر بچے کی ولادت ہوئی تو زوجہ محترمہ نے آواز لگائی یا امیر المومنین !بیٹا ہوا ہے تو یا امیر المومنین کی سدا سن کر اس بدو کی تو جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور بے اختیار پوچھنے لگا کیا آپ ہی عمر قاروق امیر المومنین ہیں؟؟ آپ عمر ہیں؟ وہی جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کانپے آپ وہ ہیں وہی والے عمر ہیں جن کے بارے میں حضرت علی نے کہا کہ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور جن کو رسول اللہ ﷺنے دعا مانگ کر اسلام کے لئے مانگا؟آپ نے فرمایا:” ہاں ہاں“ میں ہی ہوں اس نے کہا کہ ایک غریب کی بیوی کے کام کاج میں آپ کی بیوی،خاتون اول لگی ہوئی ہے اور دھوئیں کے پاس آپ نے اپنی داڑھی لپیٹ لی اور میری خدمت کرتے رہے؟ تو سیدنا عمر رو پڑے اس بدو کو گلے سے لگایا اور کہا تجھے پتا نہیں توں کہا آیا ہے؟ یہ مدینہ ہے میرے آقا کا مدینہ یہاں امیروں کے نہیں غریبوں کے استقبال ہوتے ہیں، غریبوں کو عزتیں ملتی ،ہیں یہاں مزدور اور یتیم بھی سر اٹھا کر چلتے ہیں۔


جناب وزیراعظم! مجھے آپ کی نیت پر کسی قسم کو کوئی شک نہیں ، یقینا آپ پاکستان کی پسی ہوئی عوام کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن آپ کے آس پاس ٹولہ اور ان کی غلامی کرتی بیورو کریسی ، اس نیک کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ خدارا ! آپ خود پاکستان کی غریب عوام کو آسانیاں فراہم کر نے والے تمام منصوبہ ضات کو دیکھیں اور بالخصوص فوری طور پر سر کاری ہسپتالوں میں عوام کو ذلیل وخوار کرتی بیورو کریسی کے نشے کو توڑتے ہوئے فوری طور پر اور ہنگامی بنیادوں پرقومی ہیلتھ پالیسی کا اعلان کریں گے جس کی نتیجے میں فوری اور مفت علاج ان غریبوں کا مقدر ٹھہر سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :