شہبازشریف کی درخواست ضمانت مسترد یا کچھ اور؟

منگل 29 ستمبر 2020

Haseeb Yaqub

حسیب یعقوب

عمران خان کی ریاست مدینہ کی عوام ہر طرح کی مشکلات میں گھر چکی ہے اور وہ تمام تر امیدیں جو ان کو اپنی حکومت سے تھیں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں ۔ اپوزیشن بھی حکومت سے سخت نالاں ہے کیونکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ حکومت ان کے خلاف بہت سخت کارروائیاں کر رہی ہے اور احتساب کی آڑ میں ان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نہ تو حکومت کو گرانے کے لیے خواہ ہے اور اسی سلسلے میں جدوجہد کر رہی ہے اور اب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی چھتری تلے سب جمع ہوئے اور حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اس کی حتمی صورت دھرنا ہی ہوگا لیکن اس دھرنے اور مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں فرق ہے اور وہ یہ کہ مولانا کا دھرنہ اک سولو فلائٹ تھا اور دیگر اپوزیشن ارکان بشمول بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف نے تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ان کا دھرنے میں ساتھ نہ دیا ۔

(جاری ہے)

لیکن حالات اس دفہ مختلف ہیں، تمام فیصلے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اجتماعی طور پر کر رہی ہے۔ اپوزیشن کے اس جدوجہد میں جان اس اس وقت ڈلی جب یہ خبر سامنے آئ کہ لاہور ہائی کورٹ نے صدد مسلم لیگ ن میاں شہبازشریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی ہے تاہم اس خبر میں کوئی صداقت نہیں ۔ یہ سیاسی شطرنج کی ایک خوبصورت چال تھی جو مسلم لیگ ن کی جانب سے کھیلی گئی تاکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی ممکنہ احتجاج میں جان ڈالی جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ صدد مسلم لیگ ن میاں شہبازشریف کی درخواست ضمانت مسترد نہیں ہوئی بلکہ خود میاں شہبازشریف نے درخواست ضمانت واپس لے لی اور ان کی گرفتاری کا مختصر فیصلہ جاری کردیا گیا ۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی تھا کہ ایسی صورت میں قانون میں تفصیلی فیصلہ جاری کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی اور کیس کی پیچیدگیوں کو عوام کے سامنے آنے سے روک لیا گیا تاکہ شریف خاندان کے کیسز پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے احتجاج کو متاثر نہ کر سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :