وقت بہترین سیکھاتا ہے

جمعرات 24 دسمبر 2020

Haseeb Yaqub

حسیب یعقوب

تجربہ کارری یقینن سیکھنے سے ہی آتی ہے اور سیکھنے میں کسی قسم کا حرج نہیں تاہم جب سیکھنا جب ناقابل تلافی نقسان دے جاے تو ایسے تجربے سے گبھرانا ضروری ہے۔ اب یہ تجربہ آخر کس کا تجربہ ہے جس نے مملکت خداداد کا چلتا پحرتا بھٹا ایسے بٹھایا کہ سیکھنے والے اور سننے والے حیران جب کہ سہنے والے پریشان رہ گئے۔ وقت نے ایسا پلٹا مارا کے کل تک کہ ارستو آج مستری مجید کے شاگرد بن گئے۔

ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت سے پہلے کوئی دودھ کی نہریں بہ رہی تھیں یا یہاں کا ہر شخص خوشحال تھا۔ حالات پہلے بھی خراب تھے، راستے پہلے بھی دشوار تھے، منزل پہلے بھی دور تھی، قوم پہلے بھی ترقی کی پٹری سے اتری تھی تاہم پھر بھی پٹری کو پاس تھی چناچہ یہ امید ضرور تھی  شاید کوئی ڈرائور آکر اس ٹرین کو واپس پٹری پر ڈال دے گا۔

(جاری ہے)

اس امید میں جان اس وقت آئی جب عمران خان کی صاف نیت عوام کی نظروں میں آئی۔

غربت اور مفلسی کی ماری، اپنے زمیر کو قیمے والے نان کو عوظ بیچنے والی عوام کو جب ایک روشن خواب نطر آیا تو اس نے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لئے کپتان کو اپنا وزیراعظم بنایا یہ سعچ کر کے نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم نے بھی خوب سیاسی کرتب دکھاتے ہوئے ایک کمزور ہی سہی لیکن حکومت بنا ہی دی لیکن اس دن کو بعد وزیراعظم کا دور اپوزیشن میں اس وقت کی حکومت کے خلاف دیا گیا بیان ان کو رلاوں گا لگتا ہے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مظلوم عوام کے لئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔

میرے محترم کپتان کے وسیم اکرم پلس کے بقول وہ ایک ٹرینی ہیں اور وزارت اعلی کا کام سیکھ رہے ہیں جس پر ان پر بے جا تنقید برحق تھی لیکن اب ایسے وقت میں جب ملک کا دیوالیہ ہو چکا ہو، ملک قرضوں کے شکنجوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہو، عوام مینگائی سے تنگ ہو، پوری کی پوری اپوزیشن اپنے خلاف مبینہ طور پر کی جانے والی انتقامی کاروائوں کے سبب سڑکوں پر آنے کے لیے کمر کس کر بیٹھی ہوئی ہے تو اس ملک کو وزیراعظم کی جانب سے بیان آتا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے اس کے لیے تیار رہنا بے حد ضروری ہے۔

اس بیان کا مطلب تو کوئی ناسمجھ انسان بھی باآسانی گیا ہوگا کہ پچھلے دو سالوں میں اس قوم کے ساتھ آخر ہوا کیا ہے۔ ڈالر نے تاریخ کی بلند ترین سطح دیکھی، مقبوضہ کشمیر میں ظالم بھارتی حکومت کا قبضہ ہوتے دیکھا، پی آئی اے کا بینلاقوامی سطح پر جنازہ اٹھتا دیکھا، پاکستان مخالف اور اداروں کو مخالف اناصر کو سر اٹھاتے دیکھا، بیروزگاری کا طوفان دیکھا گویا دو سالوں میں اس قوم نے اگر کچھ نہیں دیکھا تو وہ شاید سکون ہوگا۔

ہمارے ناتجربہ کار وزیراعظم نے ہر کسی کو آزمایا، اپنوں کو بھی پرکھا انجانوں پر بھی بھروسہ کیا، وزارتیں بانٹیں تو سیاست یاد آگئی، تجربہ کار لئے تو وہ یا تو ناپسندیدہ بنا دیے گیے یا وہ کھوٹے سکے نکلے۔ میرے وزیراعظم کی ٹرین کو واپس پٹری پر ڈالنے کے بجائے سڑک سے لے جانے کے فیصلے نے منزل ہی بدل ڈالی۔ کل تک جو عوام دو وقت کی روٹی کو ترستی تھی آج پانی تک سے محروم ہے، وہ لوگ جو تنخواہوں میں اضافے چاہتے تھے آج چھوٹی ہی سہی لیکن نوکری کو ترستے ہیں، وہ لوگ جو کپتان کو چن کر تجبہ کرنا چاہتے تھے آج اپنی ہی آنکھوں میں شرمندہ ہیں۔ مایوسی کے اس دور میں کچھ اچھی خبریں بھی آئیں اور یقینن تجربہ سکھاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :