ایک کالم سال 2019ء کے نام

جمعرات 2 جنوری 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

انسانی زندگی چندبرسوں کا ایک ایسا دلفریب بندھن ہے، جس میں جابجا رنگینیاں اور رعنائیاں تتلیوں کی طرح محوِ پرواز ہیں۔ انسانی فطرت کا بھنورا ذوقِ جمالیات کے کنول کی قید میں رہنا پسند کرتا ہے ۔ انسان کا مزاج ہر لمحہ حسن و خوبصورتی سے حظ اٹھانے کے لیے سرگرم رہتا ہے ہرچند کہ حسن و رعنائی چند دنوں کے شباب پر محیط ہے ، مگر اس کی د ل فریبی ،دلربائی ،دل نشینی ودل پذیری اتنی غالب اور دیرپا ہے کہ ذوقِ جمالیات کا کوئی بھی پرستارکسی کیفیت ِ دل پسند کوایک نظر دیکھتا ہے توتاثیر لیے بنا ،حظ اٹھائے بنا رہ نہیں پاتا۔

ذوقِ نظارہ ، کیا خوب دیدوادید کی کیفیت کہ بقولِ شاعر :
پہلی واری اج اوہناں اکھیاں نے تکیا 
ایہو جہیا تکیا کہ ہائے مار سٹیا
ٍٍٍٍکون کہتا ہے کہ کائنات بے مقصد ہے ، بے ذائقہ ہے ،بے مزہ ہے ،بے کارہے، ہرگز نہیں ؛ ایک لذت افروز جہان ہے، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ ایسی دنیا تو کہیں بھی نہیں ،کوچہ جاناں کی بات ہوتو تو کون ناعاقبت اندیش ہے ،جو ’ وارے وارے‘ نہ جائے ، شاعرکی زبانی جذبہٴ شوق کی فراوانی کی ترجمانی دیکھیے :
جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں
آئی ہے کوئے یار سے ہوکر ابھی ابھی 
نادان دنیا کیا جانے ؛دونگاہوں کا سنگم دو دریاؤں کا سنگم ہوتا ہے ، جن میں موج در موج جذبوں کی روانی ، محبتوں کی فراوانی ، چاہتوں کے پیچ کھاتے بھنور اور آنکھوں کے سامنے ہزار حسرتوں سے لبریز و رقصاں پانی کے قطرے دل و نگاہ کو وہ لذت نظارہ عطا کرتے ہیں کہ کیا کہنا ،قلم کے بس کی بات کہاں ،کیا خوب گنگنا گیا مہدی حسن :
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
لہریں سی اٹھیں مستانی سی
عجب رنگ ہے اس جہاں کا ،کوئی دوسرا اس جیسا کہاں ،کہاں چاند کی بے آب و گیاہ ،داغ دار اور کھردری سطح ، کہاں مریخ کے فالتو خیالی محلات اور کہاں کوچہ ٴ جاناں کے دلربا مناظر ، اہلِ محبت نے کہا ،دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں، محبتیں ہی محبتیں ہیں ، کسی دل جلے نے صدا لگائی ؛دنیا نفرت ہے ،دنیا ذلت ہے ،دنیا دکھوں کا گھر ہے ۔

(جاری ہے)

محبت ؛سب جھوٹ ہے ، کہاں کی محبت ، سب دھوکا ہے ۔ یہ حسن ؛کون سا حسن، سب فریب ہے ،فنا ہے ،فنا کا جہاں ہے ۔ جھوٹ ہیں سب مسکراہٹیں ، خوشیاں ، کہاں کی رعنائیاں، کہاں کا ذوقِ جمال ، سب عارضی ہے ،نظیر اکبر آبادی بولے: 
 سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا 
ٍٍٍجب لاد چلے گا بنجارا 
کون وفادار، کون پریمی ، کون عاشقِ زار ،کون محبوبِ دلربا ؛ کسی نے مال لوٹا تو کوئی دل لے اُڑا ،دھوکا ہی دھوکا ہے ، جھوٹ ہی جھوٹ ہے ،کوئی نہیں کسی کا ،حسن پرستوں کا انجام؛ اندوہ ناک اندھیروں کے سوا کیا ہے ، بس چند لمحوں کا سراب ہے ۔

دیوانوں کا کیا؛دیوانے تو سود و زیاں سے ماورا ایک ایسی انوکھی مخلوق ہیں کہ ایک مسکان پہ لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں ،مر مٹ جاتے ہیں ، پروانے کی مانند جل مرتے ہیں ۔وصال کیا ہے ، موت ہی تو ہے ، ہجر تو ایک جستجو کا سفر ہے ، روز افزوں بڑھتا ہے ۔یار لوگ پروانہ وار وصل کی لذت سے آشنا ہونے کے لیے ہجر کوپرے دے پھینکتے ہیں ۔وصال کی گھڑی آتی ہے ،سفر تمام شد ،پہلے پروانہ پھر شمع کا وجود بھی مٹ جاتا ہے ۔

مکافاتِ عمل ہے ،قاتل و مقتول سب نے مٹ جانا ہے ، ظالموں کو خوش فہمی ہے کہ ظلم ہمیشہ زندہ رہے گا ، مگر کوئی دن آتا ہے ، ظلم بھی مٹ جاتا ہے ، سب کو فنا ہے ،کیوں کہ یہ ناپایدار دنیافقط فنا کا جہاں ہے،کوئی خوشی فہمی کا ماراخوش فہمی میں مبتلا ہے تو اللہ اس کے حال پر رحم کرے ، وہم کا علاج دنیا میں دریافت ہی نہیں ہوا ۔سچ تو یہ ہے کہ جہانِ رنگ و بو ایک ادھورا سپنا ہے ، جس کی تعبیر کفِ افسوس مَلنے کے سوا کچھ بھی نہیں ، کتنے مر گئے ،کتنے مررہے ہیں۔

کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہی نہیں کی کہ یہ دنیا ، یہ حسن و شباب کس کے وفادار ٹھہرے ، شاہ حسین بولے:
”کالے ہرنا چر گیوں شاہ حسین دے بنے “
کس نے نہیں سمجھایا ،ماں چیختی رہی، باپ سلگتا رہا ؛ بیٹا! یہ دنیا کسی کی نہیں ، مگر حرام ہے جو بھیجے میں کوئی نصیحت ٹکے ،دنیا دنیا ،بس دنیا ۔۔۔دور کہیں لاوٴڈ سپیکر سے نغمہ فرزانہ بلند ہوا، عنایت حسین بھٹی چلایا : 
دنیا مطلب دی او یا ر
مطلب ہووے تے پیار وی کردے 
ظالم دنیادار 
دنیا مطلب دی او یار 
نفسیاتِ انسانی میں دھوکا کھانے کا رواج بہت پرا نا ہے ۔

ہادی کون و مکاں ﷺ نے فرمایا ، کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار ڈنگ نہیں کھاتا ، مگر نافرمان کہیں کے،اجہل کہیں کے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے بالا تر دنیا میں ڈوبے دنیا دار انسان بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سوا کون ہے ،جو غم کے ماروں کا سچا مونس و غمخوار ہے مگر دنیا کے عارضی حسن اور حرص کی چکا چوند نے اس قدر اندھا کردیا کہ کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ۔

 
قرآن کہتا ہے :’ اے میرے محبوب ،ان کے لیے برابر ہے انھیں ڈراوٴ یا نہ ڈراوٴ، ہم نے ان کے آگے اور پیچھے دیواریں کھڑی کردی ہیں،یہ گھٹاٹوپ اندھیروں میں ہیں،یہ دیکھ نہیں سکتے ، یہ سن نہیں سکتے ، یہ سمجھ نہیں سکتے ، یہ شعور نہیں رکھتے ، یہ اندھے ،گونگے، بہرے ، ہدایت ہے ایمان والوں کے لیے۔ یہی وہ راز ِ نہاں ہے ،جس کے باعث کسی کو گنج بخش فیضِ عالم کی مسند ملی تو کسی کے من میں مرشد نے’ الف اللہ چنبے دی بوٹی ‘ لگاکر سلطان العارفین کے تخت پر بٹھا دیا۔

کوئی گنج شکر بنا تو کوئی نظام الدین ولی سے اولیا قرار پایا، کوئی عبدالقادر جیلانی بن گیا توکوئی شومئی قسمت سے قادیانی بن کررہ گیا ’ نصیب اپنا اپنا ‘ کوئی مٹی کا آدم صفی اللہ بنا تو کوئی چپے چپے کا عبادت گزار عزازیل راندہ ٴ درگاہ ہوا۔ فارسی کے شاعر نے کیا خوب سنائی :
تکبر عزازیل را خوار کرد
 بزندان لعنت گرفتار کرد
دنیا مردار کی مانند ہے اور اس کو چاہنے والے کتے ہیں ، مگر’ جسے دے مولا ‘ کے مصداق کوئی قابل ہوتو’ شانِ کئی‘ سے ہمکنارہو جاتا ہے ۔

وگرنہ فرعون و قارون و شدادو نمرود ایسے نمرودوں سے دنیا بھری پڑی ہے ،نادان کہیں کے ،دنیا کو جوڑتے جوڑتے خاک میں جا خاک ہوئے ۔سوائے مٹی کی ڈھیری کے ان کا بچا ہی کیا ہے مگر ہٹ دھرمی دیکھیے دنیا کو چاہنے والوں کی ،تفکر نام کی چیز ہی نہیں دنیا پرستوں کے انجام ہائے پراگندہ سے آشنائی کے باوجود کچھ سیکھا ہی نہیں۔ بضد ہیں اور نعرہ زن ہیں ،ہائے دنیا !ہائے دنیا !کاش یہ نادان سوچ سکیں۔

دنیا، دنیادنیا کرتے مر مٹی ۔یہ دنیا کس کی ہوئی ،اس نے کس سے وفا کی ،کوئی سنے تو سمجھے ، کوئی سننا ہی نہیں چاہتا، کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا ۔ ہائے وہ بچپن کی یادیں ،کیا شاندارشعری تراشا یاد آیا ،جو آج تک لاشعورسے مٹا نہیں :
توتیا من موتیا 
اِس گلی نہ پھیرا پا 
اِس گلی دے لوک بُرے 
منہ تے مَلیاں لالیاں
تے اَندروں شکلاں کالیاں
 شایدکسی نغمہ نگارنے اسی تناظر میں نغمہ الاپا تھا :
دلاں دیاں میلیاں نے چن جیہیاں صورتاں 
اِنہا ں نالوں چنگیاں نے مٹی دیاں مورتاں
مگر ہر جہاں جہانِ دیگر ہے ؛ کوئی رانجھا ، پنوں،مہینوال تو کوئی فرہاد،مرزا، مجنوں دکھائی دیتا ہے ، دنیا کے حسنِ دل فریب نے وہ جنون دیا کہ سب نے ہجر کو وصل کی راحت سے ہم کنار کرنے کی کوشش میں دنیا ہی چھوڑ دی ،نہ رہا کوئی قیس نہ رہی کوئی جانِ قیس، بانس کے باغ کٹ گئے ، بانسری کی آواز معدوم ہوگئی ،یہی تو ہوتا ہے وصال یعنی ہجر کا اختتام ، فیض احمد فیض سر کھپاتے رہے :
”راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا “
مگر کیا کیجیے ، کوئی مانے تو بات بنے ، ہرذی شعور کسی انتہا کو دیکھنے کا خواہش مند ہے ، ہر ہجر کا مارا وصل کی لذت کا متمنی ہے، ہر جوتشی کسی انت کی تلاش میں ہے ، ہر جوگی سرگردان ہے ، ہر صحرا نورد مجنوں لیلائے انتہا ئے عشق کا متلاشی ہے ۔

’نصیب اپنا اپنا‘ کس کو ملتی ہے منزل کی روشنی ، کون رہتا ہید فقط غبارِ راہ ،کون ہے جو ہجر کے بعد وصل کی راحت سے ہوتا ہے سرفراز ، یہ دنیا کس نے جیتی ہے ، کسی نے نہیں مگر جستجو کا سفر جاری ہے ۔ہر شخص کسی الجھن میں گرفتار ہے ، کسی منزل کا ،کوئی کسی وصل کا طالب ہے ۔’جب تک سانس ، تب تک آس ‘ کون رکتا ہے کسی کے کہنے سے ،کون مانتا ہے کسی کی ، دیکھیے کس کا مقدر جاگے اور وہ لذت وصال سے سرفراز ہوجائے ۔

غالب کی بات دل کو لگتی ہے: 
آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک 
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک 
 سال2019ء چل بسا ، شعری ذوق رکھنے والے دوستو ں کے نام راقم الحروف کی تازہ آزاد نظم بطور ضمیمہ پیش ہے :
 الوداع 2019ء 
یخ بستہ دھندلکوں کا مسافر 
گردشِ روزگار کا بوسیدہ کمبل اوڑھے
ہزاروں زخم چھپائے 
ندامتوں سے سر جھکائے
 چرخِ کہن کی اَرتھی اٹھائے 
کسی نئی سَحر کی تلاش میں
چپ سادھے، سر جھکائے 
 جارہا ہے لمحہٴ اداس میں
یاس کے لباس میں 
 کسی ضعیف اجنبی کی طرح 
یخ بستہ دھندلکوں کا مسافر۔

۔۔
جیسے کوئی بھی نہیں اس کا کہیں 
 بھری دنیا میں شاید
 کوئی ایک بھی اس کا نہیں 
تضادات سے بھری مسافتوں کا مسافر
دسمبر کی یخ بستگی
سوزِ جگر سے وابستگی
کتنے ہی لپکتے شعلے 
دھندلکوں کی قبا اوڑھے 
ہزاروں تضادات سمیٹے
کتنے زخم ،کتنی تلخیاں 
کتنے دکھ ،کتنی محرومیاں 
 ظلم آ لود قصے ، زہر آلود کہانیاں
کتنے ارمان ، کتنی شادمانیاں 
پھیکے قہقہے ،واجبی ہنسیاں 
کتنے حادثے ،کتنی کلفتیں 
کتنے پریم ،کتنی الفتیں 
کتنے بہروپ ،کتنی صورتیں
مٹی کے باوے ،چاندچہرہ مورتیں 
ادھوری حسرتوں کے گورستان میں 
خامشی کے اک جہان میں
 ادھورے خواب ،سسکتے ارماں ،ٹوٹتے سپنے 
جیسے ایک پل میں 
سب راکھ ہونے جارہا ہے۔

۔۔ 
 تین سو پینسٹھ دنوں کا بندھن
توڑ کر جارہا ہے 
سال ہائے ماسبق کی طرح 
ہزاروں پچھتاوے،ڈھیروں ارماں
 مٹھی بھر خوشیاں 
چھوڑ کر 
سنسار سے منھ موڑکر 
خامشی کے شور میں 
 مٹتے وجود کی طرح 
دنیائے معدوم میں
جہانِ نامعلوم میں 
جارہا ہے سر جھکائے 
بے چارا۔۔۔من ہارا۔۔۔دل جلا 
مجروح ۔۔۔گھائل۔۔۔بسمل 
یخ بستہ دھندلکوں کا مسافر
سال 2019ء

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :