پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

اتوار 30 اگست 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

تخلیق کائنات اور تخلیق انسانی سے آج تک ایک طرف حق کا ظہور ہوا تو دوسری جانب باطل کو رونما کیا گیا۔ ایک طرف سچ تھا تو دوسری جانب جھوٹ، اسی طرح کہیں ظلم تھا تو ہر دور میں اللہ رب العزت ظلم اور ظالم کے خلاف آواز اٹھانے والا پیدا کردیتا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو عطاے رب ہیں اور اسی کو میسر ہوتی ہیں جن کا بھروسہ صرف اللہ رب العزت کی ذات پر ہوتا ہے۔

اللہ جلہ شان ہو نے جب انسان کو بنایا اور فرشتوں کو انسان کو سجدہ کرنے کا فرمایا تو ابلیس نے اس وقت حکم خدا کی خلاف ورزی کی جس پر اسے جنت سے بھی نکالا گیا اور اس نے انسانوں کو بہکانے کا بھی عہد کیا۔ یہ وہی ابلیس تھا جس نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے بھی نکلوایا تھا اور زمین پر شر پھیلانے کا بھی سبب بنتا رہا۔

(جاری ہے)

حضرت یوسف علیہ اسلام کو انکے بھائیوں نے حضرت یعقوب علیہ اسلام سے بھی دور کیا اور ان پر مشکلات آئیں مگر وقت نے ثابت کیا کہ حق کون ہے؟ اور اللہ کس کے ساتھ ہے؟ اسی طرح فرعون کی ظلمت نے جب طول پکڑی تو حضرت موسیٰ علیہ اسلام فرعون اور اسکے نظام کے خلاف حق بن کر آ گئے۔

جہاں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو آگ میں ڈالا گیا اور مشکلات پیدا کی گئیں، وہیں حق باطل پر بھی غالب آیا اور فرعون نشان عبرت بنا۔ تاریخ اسلامی میں جب جب وقت کا ظالم آیا تو اللہ رب العزت اسکے سامنے حق کو لایا۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے انکو آزمایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ سے محبت کرتے اور محبت الہی میں سرشار رہے۔ حضرت ابراھیم علیہ اسلام کو خواب میں اللہ کی ھدایت ہونا اور پھر حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو واقع بتانا۔

ذبح اسماعیل علیہ اسلام کے وقت دنبے کا آنا اور ذبح اسماعیل علیہ اسلام کا قبول ہونا اللہ رب العزت کی جانب سے ایک آزمائش تھی جس میں حضرت ابراھیم علیہ اسلام و حضرت اسماعیل علیہ اسلام سرخرو ہوے۔ اسی طرح حضرت حاجرہ علیہ اسلام اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو صفا و مروا کے درمیان چھوڑنا بھی حضرت ابراھیم علیہ اسلام کے لیے آزمائش تھی۔ بہر حال اس آزمائش میں بھی وہ سرخرو رہے، جب حضرت ہاجرہ علیہ اسلام، حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے لیے پانی کی تلاش میں صفا و مروا چکر لگاتیں تو حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی ایڑھیوں کی رگڑ سے اللہ پانی عطا فرماتا ہے جس کو روکنے کے لئے حضرت حاجرہ علیہ اسلام زم زم ( رک جا رک جا) فرماتی ہیں اور آج بھی زم زم کا پانی امت مسلمہ حاصل کرتی ہے۔

ہمیشہ اللہ کے محب بندوں پر آزمائش آتی ہے اور بعد ازاں حق غالب آجاتا ہے۔ تاجدار کائنات خاتم النبین ﷺ پر بھی اہل طائف نے پتھر برساے، ہجرت کرنا پڑی، غار میں خلیفہ اول حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قیام کرنا پڑا اور پھر غزوہ احد میں دندان مبارک شہید ہوے مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ کیسے حق باطل پر غالب آیا اور فتح مکہ ہوئی۔ گویا اہل حق پر مشکلات آنا ایک فطری و قدرتی عمل ہے، جس کی مخالفت نا ہو اور مشکلات نا ہوں وہ سرے سے ہی حق و سچ نہیں ہوسکتا۔

ایسے لوگ منافق و چاپلوسی کرنے والے ہی ہوسکتے ہیں۔
وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو یا شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہر اہل حق پر مصیبت آتی رہی۔ اسی طرح حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی اسی کا ایک تسلسل ہے۔ آج یوم عاشور کا دن بھی ایک پیغام دیتا ہے۔ وہ پیغام بھی حق اور باطل کی درمیان فلسفہ حق و جیت کا تصور دیتا ہے۔

نواسہ رسول ﷺ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور ظالم کے آگے ڈٹ جانا امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام اور راہ حق کی رہنمائی تھی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے وقت کے ظالم و بدمعاش اور عیاش کی بیعت سے انکار کر دیا اور اسلام کی اصل روح کی خاطر ڈٹ گئے۔ گویا اہل کوفہ نے امام رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر انکی بیعت کے لیے انکو کوفہ بلایا تھا۔

امام رضی اللہ عنہ تو کوفہ کی جانب، 72 افراد یعنی خانوادہ رسول ﷺ کے ہمراہ کوفیوں سے بیعت لینے جارہے تھے نا کہ جنگ لڑنے۔ ادھر کوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ و انکے صاحبزادگان کی شہادت ہوتی ہے تو ادھر کربلا کے مقام پر امام رضی اللہ عنہ کو روک لیا جاتا ہے۔ 7 محرم الحرام کو نہر فرات کا پانی بند ہوتا ہے تو پھر حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہ، حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت قاسم رضی اللہ عنہ ، حضرت علی اصغر، حضرت عون و محمدرضی اللہ عنہ و دیگر خانوادہ رسولﷺ کی شہادت ہوتی ہے تو امام عالی مقام رضی اللہ عنہ بھی حق کا علم لیے حالت نماز میں شہید ہوتے ہیں اور سرِ نیزہ تلاوت قرآن سے دنیا کو بتادیا جاتا ہے کہ اللہ ہی ایک حکمران ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں ہے۔

پھر بعد ازاں ملعون یزید اور اسکے حواریوں کا عبرت ناک انجام اور آج امام رضی اللہ عنہ کے ذکر کا پھیلاؤ اس بات کی دلیل ہے کہ امام رضی اللہ عنہ حق پر تھے۔ آج لوگ امام رضی اللہ عنہ کا نام تعظیم اور محبت سے لیتے ہیں جبکہ یزید اور یزیدی نظام پر لعنت بھیجتے ہیں۔ آج کا دن اس شہادت حق کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا دن ہے۔ سب سے اہم چیز جو واقع کربلا میں تھی وہ ہے ظالم، فاسق، قانون اسلامی اور احکام الہی کو توڑنے والے کے سامنے کھڑا ہوجانا۔

حق کی، مظلوم کی اور دین الہی کی آواز بلند کرنا۔ اسی طرح ایک اہم پیغام ووٹ کا یا ساتھ دینے کا ہے۔ امام رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نا کر کہ امت کو پیغام دیا کہ دین کی قدروں کی پامال کرنے والے، بد کردار، بداخلاق اور کرپٹ شخص کو کبھی ووٹ مت دیں۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اگر چاھتے تو آخری وقت تک کسی بھی لمحے یزید کی بیعت کرتے یا اسے ووٹ دے کر اپنی جان بچا لیتے مگر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا تاجدار ختم نبوت ﷺ اور بابا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عزت و ناموس کی لاج رکھی اور دین حق کو باطل کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔


شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ اصل میں اس بات کا پیغام ہے کہ قیامت تک اب دین حق غالب رہے گا۔ جب کوئی ظالم، فاسق، بداخلاق و بدکردار اٹھے تو حسینی پرچم کو بلند کرنا اور اس کے خلاف کھڑے ہوجانا۔ آج مسلمان سے لے کر غیر مسلم بھی امام رضی اللہ عنہ کو سلام پیش کرتے ہیں اور انھیں حق مانتے ہیں۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے بتا دیا کہ حالات جیسے بھی ہوں آپ نے حق پر رہنا ہے، اسی طرح دین کو فقط مساجد سے نہیں بلکہ ایوانوں و حکومت سے پھیلایا جاسکتا ہے۔

عوام الناس کو آج کے دن عہد کرنا ہوگا کہ ہم ہمیشہ باطل، ظالم و جابر کے خلاف بولیں گے اور اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کربلا میں ظاہری طور پر تب عارضی یزید کی فتح ہوئی تھی مگر اصل میں فتح حق و امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عام لوگ و امت مسلمہ امام رضی اللہ عنہ کو یاد کر رہے ہیں جبکہ یزید کا کہیں نام تک نہیں ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رح کیا خوب فرماگئے تھے کہ
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سرداد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کا بناے لا الہ است حسین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :