
بھوک
منگل 8 اگست 2017

حُسین جان
جب تک انسان کی بھوک ختم نہیں ہوتی تب تک وہ کوئی بھی تخلیقی کام کرنے کے سے قاصر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر میرا ایک کزن ہے کسی زمانے میں 12000کی نوکری کرتا تھا۔ پھر اُس نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ خوش قسمتی سے کام چل نکلااُس کو کاروبار شروع کیے تقریبا 7سال ہو گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا وہ ان ساتھ سالوں کی بچت سے کوئی ایسا کام کرتا جو اُس کے مستقبل کے لیے بہتر ہوتا ۔ مگر بات وہی ہے ابھی اُس کی بھوک ختم نہیں ہوئی۔ یعنی وہ محرومیاں جو اُس نے دیکھیں تھیں پہلے اُن کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یعنی روز نئے نئے موبائل خریدتا ہے لیپ ٹاپ لے آتا ہے۔ گھر کے باتھ روم میں مہنگی مہنگی اشیاء لگواتا ہے۔ لکڑی کے کام میں پیسے ضائع کرتا ہے۔ کبھی گاڑی خرید لیتا ہے ہر چھ مہنے بعد موٹر سائیکل بدلتا ہے۔
بھوک کئی قسم کی ہوتی ہے کچھ لوگ ایک دو وقت کا کھانا نہ کھائیں تو وہ بھی اپنے آپ کو بھوکا تصور کرتے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اب مسلمان جب روزہ رکھتے ہیں تو ایک وقت کی بھوک برداشت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اُس بھوک سے گزر رہے ہیں جس سے غریب لوگ۔ جب آپ کے بعد ایک وقت کا کھانا میسر ہو وہ دوسرے وقت کا پتا نہ ہو کہ ملے گا بھی کہ نہیں تو اسے بھوک کہتے ہیں یعنی وہ بھوک جو انسان کی تمام تکلیفں بڑھا دیتی ہے۔
کسی نے ایک آدمی سے پوچھا اگر تمھیں ایک لاکھ دے دیا جائے تو کیا کرو گے۔ اُس نے جھٹ جواب دیا کہ سب سے پہلے جلیباں کھاؤں گا۔ یہ ایسی بھوک ہے جو اصافی خواہشات سے پوری ہوتی ہے۔ دوسری طرف ہوس کو بھی بھوک کی ہی ایک قسم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش یا کوئی ایسی چیزجو دوسروں کے پاس ہو لیکن آپ کی دسترس سے باہر ہو۔ ایسی چیز انسان کی بھوک کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ دوسروں کا حق کھانے کو بھی ہم بھوک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر طاقت ور طبقہ کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے طبقے کے پاس بہت سا روپیہ پیسہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُن کی بھوک نہیں ختم ہوتی۔ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ ہر حال میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کاروباری شراکت میں بھی کچھ لوگ بھوک کا اظہار کرتے ہیں۔ یعنی منافہ کی زیادہ رقم خود ہڑپ کر جاتے ہیں اور دوسرئے کے لیے کچھ نہیں چھوڑتے۔ یہ بھوک کی ایک خطرناک قسم ہے۔ اس سے نفرت کے وہ بیج بوہے جاتے ہیں جن کی کاشت نسلوں کو کاٹنی پڑتی ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر کسی کی محنت کو غارت کرنا ایک ایسا عمل ہے جسے کسی طور پر بھی نہیں سراہا جاسکتا۔ کچھ دانشوروں کا یہ بھی خیال ہے کہ انسان کو بھوک ہی برائی کی طرف راغب کرتی ہے۔ موجودہ زمانے میں جرائم کی شرع کافی بڑھ چکی ہے۔ کسی انتہائی نامعقول دوست نے ایک دفعہ کہا تھا ۔ کہ اگر جرائم پیشہ افراد پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جرائم کرتے ہوں تو اُن کو ایک کامیاب چوری کے بعد دوسری چوری کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ کامیاب واردات کے بعد انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ چھوٹا موٹا کام دھندہ کر سکے۔ لیکن جرائم پیشہ افراد اپنی اصافی خوائشات کی تسکین کے لیے وارداتیں کرتے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ان کی بھوک دن بدن بڑھتی رہتی ہے۔
الیکشن کے زمانے میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ صاحب پراڈو پر بیٹھ کرایسے لوگوں سے ووٹ کی بھیک مانگتا ہے جن کے چہرے زردی مائل ہوچکے ہوتے ہیں پسلیاں باہر کو اُبھری ہوتی ہیں۔ ٹوٹی جوتی کے ساتھ وہ بہت مان سے ایک پلیٹ بریانی کے عوث اپنا مستقبل ایک ایسے بھوکے کو بیچ دیتے ہیں جو اُن کی چمڑی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں کہ وہاں نظام بہت اچھے ہیں لوگ قطار میں لگ کر اپنے کام کرواتے ہیں ۔ وہاں سفارش کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ لوگ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتے ہیں۔ کبھی ہمیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ آخر اُن کی اس خوشحالی اور خوش اخلاقی کے پیچھے راز کیا ہے۔ ویسے اس راز کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ بڑی سیدھی سی بات ہے ان ممالک کے حکمرانوں نے سب سے پہلے اپنی عوام کی بھوک ختم کی۔ تمام بنیادی سہولیات اُن تک پہنچائیں۔ تعلیم ، صحت، بے روزگاری کا خاتمہ، جرائم پر کنٹرول جیسے کام اُنہوں نے پہلے کیے۔ تاکہ لوگ خوشحال ہوں اور جب پیٹ بھرا ہو تو نفاست آہی جاتی ہے۔
تیسری دُنیا کے لوگ اتنے چڑچڑے ،بداخلاق اور بے حس کیوں ہے۔ ظاہر ہے جب اُن کو بنیاد سہولیات میسر نہ ہوں گی تو یہ صفتیں ان میں خود بہ خود ہی آجائیں گی۔ اپنے ہاں یہ حال ہے کہ اگر شناختی کارڈ بنوانے جانا ہے تو اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ پھر لوگ سفارشیں ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح ہمارا کام جلدی ہو جائے یا پھر کچھ لوگ سرکاری ملازموں کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُن کے کام بروقت ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام ہیں ہی نہیں۔ ایک بیڈ پر تین تین مریض ڈالیں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھوک بھی ختم ہونے میں نہیں آتی ہسپتالوں میں کھانے کو دوڑتے ہیں اور نجی کلینکوں میں باہیں پھیلائیں انتظار کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھوک کا علاج تو شائد حکومت اور ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔ جن سے یہ کمیشن کی مد میں لاکھوں کماتے ہیں۔
دوسری طرف سرکاری سکولوں کو دیکھ لیں باتھ روم تک موجود نہیں فرنیچر نام کی کسی چیز کا تصور بھی نہیں۔ اساتذہ کی بھوک الگ سے پریشان کیے رکھتی ہے۔ سکول میں دل لگا کر نہیں پڑھاتے مگر ٹیوشن سینٹر میں خود کو افلاطون ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جیسے ہی بچے کے والدین ٹیوشن فیس ادا کرتے ہیں ان اساتذاہ سے زیادہ خوش اخلاق کوئی نظر نہیں آتا۔
تو بات پھر وہی ہے کہ جب تک اقوام کی بھوک ختم نہیں ہوگی وہ کوئی بھی تخلیقی کام نہیں کرپاتے۔ اور بھوک ختم کرنے کے لیے اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ اگر یہ بھوک اسی طرح برقرار رہی تو تخلیقی کام تو بہت دور کی بات ہم لوگ ایک دوسرے کی گردنے کاٹیں گے۔ عوام کو نہ صرف اپنی بھوک ختم کرنی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کرپٹ حکمرانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی بھی بھوک کا علاج کرنا ہے تاکہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے عوام کی بھوک مزید نہ بڑھا سکیں۔
(جاری ہے)
یعنی وہ پیسہ جو بہت محنت سے کمایا گیا ہے اُس کو ایسی چیزوں میں پر صرف کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔
ہاں اس پیسے سے وہ ایک دوسری برانچ کھول سکتا تھا۔ اسی پیسے سے وہ پلاٹ میں سرمایا کاری کر دیتا۔ مطلب اسی طرح کے بہت سے تخلیقی کام کیے جاسکتے ہیں۔ مگر بھوک ایسی چیز ہے جو انسان کا دماغ چاٹ جاتی ہے اور اُسے بہتری کی طرف بڑھنے نہیں دیتی۔بھوک کئی قسم کی ہوتی ہے کچھ لوگ ایک دو وقت کا کھانا نہ کھائیں تو وہ بھی اپنے آپ کو بھوکا تصور کرتے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اب مسلمان جب روزہ رکھتے ہیں تو ایک وقت کی بھوک برداشت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اُس بھوک سے گزر رہے ہیں جس سے غریب لوگ۔ جب آپ کے بعد ایک وقت کا کھانا میسر ہو وہ دوسرے وقت کا پتا نہ ہو کہ ملے گا بھی کہ نہیں تو اسے بھوک کہتے ہیں یعنی وہ بھوک جو انسان کی تمام تکلیفں بڑھا دیتی ہے۔
کسی نے ایک آدمی سے پوچھا اگر تمھیں ایک لاکھ دے دیا جائے تو کیا کرو گے۔ اُس نے جھٹ جواب دیا کہ سب سے پہلے جلیباں کھاؤں گا۔ یہ ایسی بھوک ہے جو اصافی خواہشات سے پوری ہوتی ہے۔ دوسری طرف ہوس کو بھی بھوک کی ہی ایک قسم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش یا کوئی ایسی چیزجو دوسروں کے پاس ہو لیکن آپ کی دسترس سے باہر ہو۔ ایسی چیز انسان کی بھوک کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ دوسروں کا حق کھانے کو بھی ہم بھوک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر طاقت ور طبقہ کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے طبقے کے پاس بہت سا روپیہ پیسہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُن کی بھوک نہیں ختم ہوتی۔ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ ہر حال میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کاروباری شراکت میں بھی کچھ لوگ بھوک کا اظہار کرتے ہیں۔ یعنی منافہ کی زیادہ رقم خود ہڑپ کر جاتے ہیں اور دوسرئے کے لیے کچھ نہیں چھوڑتے۔ یہ بھوک کی ایک خطرناک قسم ہے۔ اس سے نفرت کے وہ بیج بوہے جاتے ہیں جن کی کاشت نسلوں کو کاٹنی پڑتی ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر کسی کی محنت کو غارت کرنا ایک ایسا عمل ہے جسے کسی طور پر بھی نہیں سراہا جاسکتا۔ کچھ دانشوروں کا یہ بھی خیال ہے کہ انسان کو بھوک ہی برائی کی طرف راغب کرتی ہے۔ موجودہ زمانے میں جرائم کی شرع کافی بڑھ چکی ہے۔ کسی انتہائی نامعقول دوست نے ایک دفعہ کہا تھا ۔ کہ اگر جرائم پیشہ افراد پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جرائم کرتے ہوں تو اُن کو ایک کامیاب چوری کے بعد دوسری چوری کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ کامیاب واردات کے بعد انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ چھوٹا موٹا کام دھندہ کر سکے۔ لیکن جرائم پیشہ افراد اپنی اصافی خوائشات کی تسکین کے لیے وارداتیں کرتے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ان کی بھوک دن بدن بڑھتی رہتی ہے۔
الیکشن کے زمانے میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ صاحب پراڈو پر بیٹھ کرایسے لوگوں سے ووٹ کی بھیک مانگتا ہے جن کے چہرے زردی مائل ہوچکے ہوتے ہیں پسلیاں باہر کو اُبھری ہوتی ہیں۔ ٹوٹی جوتی کے ساتھ وہ بہت مان سے ایک پلیٹ بریانی کے عوث اپنا مستقبل ایک ایسے بھوکے کو بیچ دیتے ہیں جو اُن کی چمڑی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں کہ وہاں نظام بہت اچھے ہیں لوگ قطار میں لگ کر اپنے کام کرواتے ہیں ۔ وہاں سفارش کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ لوگ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتے ہیں۔ کبھی ہمیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ آخر اُن کی اس خوشحالی اور خوش اخلاقی کے پیچھے راز کیا ہے۔ ویسے اس راز کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ بڑی سیدھی سی بات ہے ان ممالک کے حکمرانوں نے سب سے پہلے اپنی عوام کی بھوک ختم کی۔ تمام بنیادی سہولیات اُن تک پہنچائیں۔ تعلیم ، صحت، بے روزگاری کا خاتمہ، جرائم پر کنٹرول جیسے کام اُنہوں نے پہلے کیے۔ تاکہ لوگ خوشحال ہوں اور جب پیٹ بھرا ہو تو نفاست آہی جاتی ہے۔
تیسری دُنیا کے لوگ اتنے چڑچڑے ،بداخلاق اور بے حس کیوں ہے۔ ظاہر ہے جب اُن کو بنیاد سہولیات میسر نہ ہوں گی تو یہ صفتیں ان میں خود بہ خود ہی آجائیں گی۔ اپنے ہاں یہ حال ہے کہ اگر شناختی کارڈ بنوانے جانا ہے تو اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ خداکی پناہ پھر لوگ سفارشیں ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح ہمارا کام جلدی ہو جائے یا پھر کچھ لوگ سرکاری ملازموں کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُن کے کام بروقت ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام ہیں ہی نہیں۔ ایک بیڈ پر تین تین مریض ڈالیں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھوک بھی ختم ہونے میں نہیں آتی ہسپتالوں میں کھانے کو دوڑتے ہیں اور نجی کلینکوں میں باہیں پھیلائیں انتظار کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بھوک کا علاج تو شائد حکومت اور ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔ جن سے یہ کمیشن کی مد میں لاکھوں کماتے ہیں۔
دوسری طرف سرکاری سکولوں کو دیکھ لیں باتھ روم تک موجود نہیں فرنیچر نام کی کسی چیز کا تصور بھی نہیں۔ اساتذہ کی بھوک الگ سے پریشان کیے رکھتی ہے۔ سکول میں دل لگا کر نہیں پڑھاتے مگر ٹیوشن سینٹر میں خود کو افلاطون ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جیسے ہی بچے کے والدین ٹیوشن فیس ادا کرتے ہیں ان اساتذاہ سے زیادہ خوش اخلاق کوئی نظر نہیں آتا۔
تو بات پھر وہی ہے کہ جب تک اقوام کی بھوک ختم نہیں ہوگی وہ کوئی بھی تخلیقی کام نہیں کرپاتے۔ اور بھوک ختم کرنے کے لیے اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ اگر یہ بھوک اسی طرح برقرار رہی تو تخلیقی کام تو بہت دور کی بات ہم لوگ ایک دوسرے کی گردنے کاٹیں گے۔ عوام کو نہ صرف اپنی بھوک ختم کرنی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کرپٹ حکمرانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی بھی بھوک کا علاج کرنا ہے تاکہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے عوام کی بھوک مزید نہ بڑھا سکیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.