اُلٹی کھوپڑی

بدھ 6 ستمبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

سب سے پہلے آپ کو ڈی جے این رائٹ کی نظم "باغی" کا اردو ترجمہ اپنے الفاظ میں سناتا ہوں۔
جب سب کے بال چھوٹے ہوں
باغی کے بال لمبے ہوتے ہیں
جب سب بال بڑھاتے ہیں
باغی بال چھوٹے کرواتے ہیں
جب سبق کے درمیان بحث چل رہی ہو
باغی کی خاموشی چل رہی ہو
جب سب خاموشی سے سبق سن رہے ہوں
باغی باتیں کر رہے ہوں
جب سب یونی فارم پہنتے ہیں
باغی رنگ دار پہنتے ہیں
جب سب پہنے رانگ دار کپڑے
یہ یونی فارم میں آتے ہیں
جب کتوں کی باتیں ہوتی ہیں
یہ بلیوں کا رونا روتے ہیں
جب بلیوں کو چومیاں ہوتی ہیں
یہ کتوں کی باتیں کرتے ہیں
جب سب کریں سورج کی تعریفیں
یہ بارش کو روتے رہتے ہیں
جب سب بارش کو ویلکم کریں
یہ سورج کی تمنا کرتے ہیں
جب سب کی ملاقاتیں چلتی ہیں
یہ گھر وڑے رہتے ہیں
جب گھروں میں لوگ رہتے ہیں
یہ میٹینگ رکھ لیتے ہیں
جب سب بولیں ٹھیک ہے جی
یہ نو نو میں اٹکے رہتے ہیں
جب سب کہیں شکریہ آپ کا
یہ جی جی کرتے رہتے ہیں
ایسے سرپھرے بہتر ہیں
پر آپ نہ ان کو چاہتے ہیں
اسی طرح کچھ سال پہلے فلم دیکھی تھی جس میں ایک کردار ایسا تھا جو ہر کام اُلٹا کرنے کا عادی تھا۔

(جاری ہے)

جیسے کہ اگر لوگ عید منا رہے ہوتے تو وہ شب برات کے پٹاخے پھوڑنے کی تیاری میں لگا ہوتا۔ لوگ شب برات کی خوشیوں سے نہار ہو رہے ہوتے تو وہ گھر میں عید ملن پارٹی کھ لیتا۔ لوگ محرم کے سوگ میں ہوتے تو یہ جناب جشن آزادی کی جھنڈیوں سے گھر کو سجا رہے ہوتے۔ اسی طرح ہر کام اُلٹا کرنے کی عادت تھی ۔ آخر ایک دن لوگوں نے خوب پھینٹی لگائی تو جا کر جناب کی عقل ٹھکانے لگی۔


اسی تناظر میں دیکھیں تو امریکہ میں بھی کم وپیش یہی صورتحال ہے۔ پوری دُنیا میں ڈرائیونگ دائیں طرف سے ہوتی ہے مگر امریکہ میں بائیں طرف۔ ساری دُنیا میں بجلی کے سیوئچ اُوپر کی طرف بند اور نیچے کے طرف آن ہوتے ہیں ۔ امریکہ میں یہ کام بھی اُلٹا ہوتا ہے۔ ساری دُنیا پٹرول کہتی ہے مگر امریکن گیس کہتے ہیں۔ بجلی 220ہے تو امریکہ میں 12 وولٹ ہیں۔

یعنی امریکہ نے بھی قسم کھا رہی ہے کہ سارے کام دُنیا سے اُلٹے ہی کرنے ہیں۔ اس طرح کام کرنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں ایک تو احساس کمتری اور دوسرا بہت زیادہ قابل اعتمادی۔ امریکہ والے آخرالذکر میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ عالمی طاقت ہے دوسرا وہ خود کو بہت سمجھ دار سمجھتے ہیں اُن کے خیام میں دُنیا کے لوگ اُن کی نقل کرتے ہیں یہ بات کسی حد تک سچ بھی ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ ہر کام میں اپنی مرضی کریں۔ اس سے معاملات خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف۔ یہاں کے معاملات بھی مختلف نہیں اپنے ہاں بھی بہت سے لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو ہر کام اُلٹا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ مثال کی تور پر آج کل تمام مسلمان برما کی مسلمانوں پر کیے گئے مظالم کی باتیں کر رہے ہیں ۔

مگر ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اس میں بھی کوئی نہ کوئی پہلو ایسا نکال رہیں جیسے یہ برما کی حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہو۔ کتے بلیوں کی حقوق کی خاطر مرنے مارنے والوں کو یہ مظلوم لوگ نظر نہیں آتے۔ ان کو مسلمانوں کے ممالک میں بسنے والی تمام اقلیتوں تو مظلوم نظر آتی ہیں مگر جن جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اُن پر ظلم بھی ہو رہے ہو تو تب بھی ان کو مسلمانوں میں ہی کیڑے نظر آئیں گے۔

یہ وہ اُلٹی کھوپڑی کے لوگ ہیں جب ان کی دم پر پیر آجاے تو پلٹ کر کاٹنے کو دوڑتے ہیں پر کسی حقیقی مظلوم کی داددرسی کو نہیں بولیں گے۔
چلیں مانا طالبان، داعش، القاعدہ والے دہشت گرد تھے اُن کا مارا جانا چاہیے تھا کہ وہ دُنیا کا امن خراب کر رہے ہیں ۔ لیکن کیا یہ برما کے مظلوم مسلمان بھی دہشت گرد ہیں جن کو کاٹا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ تصاویر اور ویڈیوز جعلی ہوں پر کیا سب کی سب جعلی ہیں ۔

کیا جعلی ویڈیوز بنانے کے لیے کوئی خود کو آگ لگواتا ہے کیا کوئی خود کی تانگیں ہاتھ اور گردنیں کٹواتا ہے۔ ایسی بات نہیں ہے جہاں جہاں جس جس اقلیت پر مظالم ہو رہے ہوں سب کو چاہیے کہ اُن کی مدد کریں اُن کی آواز بنیں۔ نہ کہ امریکہ اور نام نہاد باغیوں کی طرح اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر بیٹھ جائیں۔ یہاں اگر ایک مسیح بھائی مارا جاے تو میڈیا سارا سارا دن واویلہ مچاتا رہتے ہے۔ کوئی لبرل ہو قدامت پسند سب کو ایک دوسرئے کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے نہ کے تماشہ دیکھا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :