ہمارے نکمے سکالرز

ہفتہ 29 دسمبر 2018

Hussain Jan

حُسین جان

ابھی سامنے دیکھ رہا ہوں کہ ایک واپڈا اہلکار الیکٹرانک آری سے درخت کی بڑھی ہوئی بڑی بڑی شاخیں کاٹ رہا ہے۔ اس عمل کو بغور دیکھ رہا تھا کہ ایک بات جھٹ سے زہن میں آگئی کہ الیکٹرانک آری بھی کیا کمال کی ایجاد ہے۔ وہ کام جو گھنٹوں میں ہوتا تھا اور جس کے کرنے سے آدمی تھک کر چور ہوجاتا تھا اب کتنی آسانی سے ہورہا ہے۔ چند سیکنڈ میں بڑے سے بڑے تنے کو گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہا تھا۔

پھر سوچا پاکستان دُنیا بھر میں ریسرچ پیپر چھپوانے والوں کی فہرست میں پہلے نمبر ہے۔ تو ہوسکتا ہے یہ الیکٹرانک آری انہی میں سے کسی ریسرچر یا سائنسدان نے ایجاد کی ہوگی۔ لہذا فوراً گوگل سے رجوع کیا کہ اس عظیم آدمی کا نام تلاش کر کے اُسے خراج تحسین پیش کرسکوں۔ تو جیسے ہی سرکولر آری کا موجد کو سرچ کیا تو میرے سامنے کسی تابیتھا باببیٹ کا نام آگیا ۔

(جاری ہے)

جو غالباً ایک خاتون تھی۔ اُس نے جب دیکھا کہ بڑئے پیمانے پر لکڑی کاٹنے میں کافی دشواری ہوتی ہے تو اس نے یہ مشکل آسان بنانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں اور 1831میں الیکٹرک آری ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس موجد کا اس خطہ زمین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
خیر اسی طرح بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچتا رہا جو حال ہی میں ایجاد یا دریافت ہوئیں کہ ہوسکتا ہے ان میں سے کسی نا کسی کا تعلق ہمارے معاشرئے سے بھی۔

لیکن بدقسمتی سے کوئی ایک نام بھی تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ یہی حال ہمارے طلباء کا ہے جیسے دیکھو میٹرک میں ہزار نمبر لے رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ تقریباًگزشتہ پانچ سال سے چل رہاہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں کوئی بڑا زہن پیدا نہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ذہین لوگ دوسرے ممالک میں جاکر اپنی قسمت کو آزماتے ہیں اور اچھے پیسے کما لیتے ہیں۔

مان لیا کہ برین ڈرین بھی ہمارا ایک مسئلہ ہے ۔ مگر کیا یہ ضروری ہے کہ سب کے سب لوگ ہی باہر بھاگ گئے ہوں۔
ہم ایسے کاموں میں بہت ماہر ہیں جس میں دماغ کا کم سے کم استعمال ہوتا ہو۔ مثلا آپ سابقہ حکومتوں کو دیکھ لیں ۔ اُنہوں نے صرف سڑکیں بنائیں، پُل تعمیر کیے۔ ہاسونگ کالونیاں بنوائیں، لیپ ٹاپ تقسیم کیے۔ یعنی یہ وہ کام ہے جس میں دماغ کا استعمال نا ہونے کے برابر ہے۔

دوسری طرح کیا کبھی کسی نے کوئی ایسا پراجیکٹ شروع کیا جس سے پورے ملک کے لوگوں کا فائدہ ہو۔ مثلا کوئی ایسا ٹیلی فون نیٹ ورک ہی بنا لیتے مواصلات کو سہل کر دیتا۔ کیا کم بجلی سے چلنے والا اے سی بنا۔ کیا کسی نے جہاز کا کوئی پرزہ بنانے کی کوشش کی۔ بالکل بھی نہیں تو ایسی قوم سے ترقی کی کیا اُمید لگائی جاسکتی۔
دوسری طرف ہمارے سکالرز، ادیب، قلم کار، اور اخبار نویس کیا کمال کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

اپنے اپنے قالموں میں ایسی ایسی کہانیا ں سناتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ مزے کی بات پھر یہی لوگ کہتے ہیں ہم عوام کو شعور دے رہیں اور عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ او بھائی الفاظ کا استعمال تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ مزہ تو تب جب آج سائنس کی ترقی میں کوئی کام کرکے دیکھا۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے تعلیمی معیار کو دیکھیں تو وہ سوائے کلرک پیدا کرنے کے کسی قابل نہیں۔

ملک میں ٹیکنکل تعلیم نا ہونے کے برابر ہے۔ ہر بندہ چاہتا ہے کہ میں بی اے، ایم اے کر لوں اور اچھی سی نوکری مل جائے۔ اوزار کوئی پکڑنا نہیں چاہتا۔ یہاں پلمبر، میسن ، الیکٹریشن کی کوئی عزت نہں۔ اسی لیے لوگ اس طرف بھی نہیں آتے۔ جب معیار تعلیم ہی اس قدر بوگس ہو گا تو ذہین لوگ کیسے پیدا ہوں گے۔ سرکاری سکولوں کی ابتر حالت دیکھ کر سوچا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے ہیرے کوئلے میں ہی پڑے رہیں گے۔


اس کے ساتھ ساتھ اگر نجی سکولوں میں دیکھا جائے تو اُن کا زیادہ زور انگریزی پر ہوتا ہے۔ جو بچہ انگریزی سیکھ لے اُسے پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ انگریزی کو ایک مضمون کی حثیت سے تو پڑھا جاسکتا ہے ۔ لیکن جب آپ اپنے بچوں پر غیر ملکی زبان مسلط کردیں گے تو اچھے نتائج کی اُمید مت رکھیں۔ لاکھوں میں فیس بٹورنے والے یہ نجی سکول ملک کے عوام کو دو حصوں میں بانٹ دیتے ہیں۔

یعنی غریب کا بچہ آج بھی ٹاٹ پر تعلیم حاصل کرتا ہے اور امیر کا بچہ اے سی والے کمرے میں۔ یہاں سہولتوں کواہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ بچے کو ایسے سکول میں داخل کروانا ہے۔ جہاں بچے کو تمام عیاشی کی سہولتیں میسر ہوں۔ زریعہ تعلیم چاہے کچھ بھی ہو۔
تو کہنے کا مطلب ہے ہم نے ایسے ریسرچر اور سکالرز کا اچار ڈالنا ہے جو ملک و قوم کے کسی کام ہی نا آسکیں۔

موجودہ حکومت کو اس طرف خاص دھیان دینا ہوگا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہم آنے والے سو سالوں میں بھی کچھ نہیں کرپائیں گے۔ ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے، یعنی گا، گے ،گی بہت ہوچکا ۔ اب کچھ کر گزرنے کا وقت ہے۔ لوگ اس اُمید پر ہیں کہ آپ کہیں ہم نے یہ کر دیا وہ کردیا۔ لارے تو پہلی حکومتیں بھی لگاتی رہی ہیں۔ اگر آپ لوگوں کو اُمید دلا کر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو لوگوں کی توقعات پر بھی پورا اُترنے کی کوشش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :