والٹن باب پاکستان

بدھ 19 اگست 2020

Hussain Jan

حُسین جان

باب پاکستان پراجیکٹ کو اس حوالے سے بھی بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ ابھی تک اس کا تقریبا پانچ چھ دفعہ افتتاح ہوچکا ہے. لیکن کام کبھی بھی شروع نہیں ہوا. باب پاکستان تحریک پاکستان کی ایک اہم یاد اور ورثہ ہے.
14 اگست کی آمد آمد ہے وطن کی محبت دلوں میں ایک دف تو ضرور ٹھاٹھیں مارے گی. مجھے یاد پڑتا ہے جب نوکری اخبار میں نوکری کیا کرتا تھا تو ظفر علی روڈ پر واقع ایک ڈاکٹر جن کا نام غالبا خواجہ صادق حسین تھا کا انٹرویو لینے کا اتفاق ہوا.

اس وقت ان کی عمر تقریبا 90 سال کے قریب تھی. 14 اگست 1947 کو ان کو کنگ ایدورڈ کالج جو کہ اب یونیورسٹی بن چکا ہے سے ایم بی بی ایس کیے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے.

(جاری ہے)

وہ چونکہ ڈاکٹر تھے اور ہمارا تعلق بھی ایک میڈیکل میگزین سے تھا لہذا گفتگو کا زیادہ حصہ صحت کے متعلق ہی رہا. پھر ہمیں پتا بھی نا چلا کہ گفتگو کا رخ اچانک تاریخ پاکستان کی طرف مڑ گیا. میں یہ جان کر حیران ہوا کہ ایک گمنام ہیرو سے بات چیت کر رہا ہوں.

ڈاکٹر صاحب آزادی کے دوران کی گئی دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے بارے میں بتانے لگے کہ جب قافلے لٹے پٹے پاکستان پہنچھتے تھے تو ان کو مختلف کیمپس میں شفٹ کردیا جاتا تھا. بقول ڈاکٹر صاحب ہمارے پاس مریضوں کو دینے کے لیے چند دوائیوں کے مکسچر کے سوا کچھ نہیں تھا. یہاں تک کہ ہمارے کالج سے ہندوں اساتذہ فرنیچر اور اسٹیشنری تک بھی ساتھ لے گئے تھے.

دوائیوں تک کو بھی نا چھوڑا تھا. لیکن ہم جوان تھے. چوش اور ولولہ بھرا پڑا تھا قائد آعظم کی تقاریر سنتے تھے تو یہ جوش مزید بڑھ جاتا. ہم آپ میں کہا کرتے تھے کہ اب اس ملک بنایا ہے تو چلانا بھی ہے. ڈاکٹر صاحب مہاجرین کے زکر پر آبیدہ ہوکر بتانے لگے کہ ان کے پاخانے سے جو کے ثابت دانے نکلا کرتے تھے. بھوک، بیماری اور بلوائیوں کے حملوں نے مہاجرین کو دنیا کی بدقسمت ترین مخلوق بنا کر رکھ دیا تھا.

ایسے بنا تھا میرا پیارا پاکستان. مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحب نے روتے ہوا کہا یہ چوڑے سیاستدان کیا جانیں اس ملک کی قدر و قیمت.
والٹن اسٹیشن کے پیچھے ایک قطہ اراضی ہے جس میں مہاجریں آزادی کے لیے کیمپ لگایا گیا تھا. اس جگہ کو بعد میں باب پاکستان کا نام دیا گیا. کئی دہائیوں سے یہ جگہ جھاڑ جھنکار کی آماجگاہ بنی رہی. پھر سیاستدانوں کو خیال آیا کیوں نا اس نشانی کو آباد کیا جائے.

لہذا نواز شریف صاحب کے پہلے دور حکومت سے موجودہ حکومت تک میں تمام حکومتوں نے اس منصوبے کا افتتاح کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی. یہاں میوزیم، لائبریری، جیسی چیزیں بننا تھیں لیکن ابھی تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا. ہماری نوجوان نسل کی اکثریت تاریخ پاکستان سے نابلد ہے. جو جھوٹ سچ کتابوں میں لکھا اسی کو پڑھ کر ایمان لائے ہوئے ہیں.

آزادی کا جشن منایا جارہا ہے اس جشن میں جب تک حقیقی تحریروں کی چاشنی شامل نہیں ہوگی یہ جشن پھیکا رہے گا. ہمیں اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بتانا ہے کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے. ہمارے ایک اساتذہ صاحب کہا کرتے تھے اس ملک کی بنیادوں میں خالص خون کی قربانی شامل ہے. اللہ کی نصرت سے یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم رہے گا.
میری احباب اختیار سے گزارش ہے کہ باب پاکستان منصوبے کو التواع کا شکار نا ہونے دیں اس کو جلد از جلد مکمل کریں. اس طرح کی تاریخی منصوبوں سے وطن کی محبت بڑھتی ہے. لوگ وہاں جا کر تاریخ پاکستان کی تصویری جھلکیاں اور دیگر چیزیں دیکھیں گے تو دی گئی قربانیوں کو یاد رکھیں گے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :