ظلمت و مایوسی کے دور میں اللہ رب العزت سے رابطہ!

پیر 29 جون 2020

Imran Mehmood

عمران محمود

حضور نبی کریم خاتم النبینﷺ نے فرمایا ، "دنیا آخرت کی کھیتی ہے"۔یہ امتحا ن کی جگہ ہے ۔ اور ہم اس کو مستقل گھر سمجھ بیٹھے ہیں۔جبکہ
 ایک بہت خوبصورت جملہ ہے :۔    
سامان سو برس کا
پل کی خبر نہیں
 افسو س ہم اس عاضی زندگی میں اتنا مگن ہو گئے کہ آنے والی حقیقی زندگی کو ہی بھول گئے۔اس کی تیار ی ہی بھول گئے۔

اپنے پیارے اللہ کو بھو ل گئے ۔ پیارے نبی پاک ﷺ کا سامنا کرنا بھول گئے۔ اللہ کے سامنے کھڑا ہو نے کوبھول گئے، ہاں یاد رہا تو صرف کھو کھلا عہدہ، وزارت، دولت اور شہرت ۔وزارتوں اور عہد و ں کا ایسا ناجا ئز فائدہ اٹھا یا کہ کبھی کس عاجز و کمزور بندے کا نقصا ن کر دیا کبھی کس کا، کبھی کس غیر مستحق کا فائدہ کر دیاتو کبھی کس کا،کبھی کس حقدار کا حق کسی اور کو دے دیا اور مظلو م و بے بس کو جھوٹے وعدے اور امیدیں دلا ئیں۔

(جاری ہے)

اس پر افسوس یہ کہ تحقیق کرنا بھی گوارا نہ کیا کہ میں غلط کر رہا یا سہی، مجھے صحیح بتانے والے لو گ ملے یا غلط بتا کر اپنے فوائد لینے والے ملے۔ لیکن غافل اپنے غرور وتکبر اور عہدو ں میں ایسے پھنس گئے کہ حق اور باطل میں فرق کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ میرے نبی ﷺ نے فرما یا ۔ "تم میں سے ہر کو ئی نگہبا ن ہے اور اس سے اس کی رعایہ کے متعلق پو چھا جا ئے گا"لیکن کسی میں ڈرہی نہیں رہا۔

کسی نے دولت کا فائدہ اٹھا یا، غریبو ں میں مال دیا تو دکھا وا کیا، بیواؤ ں میں تقسیم کیا تو ان کی عصمت دری کی۔اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھ گئے۔ جبکہ اللہ سخی کو پسند کرتے ہے۔ اس طرح کسی کو عارضی شہرت ملی تو اس نے کمزور اور بے بس کو ملنا تک گوارا نہ کیا۔اپنے شہرت کو فائدے لیتا رہا۔ سارے ہی خدا بن بیٹھے۔ اتنا گرگئے ہم لو گ کہ اپنے نبی ﷺسے تھوڑی سی وفا کرنا بھی بھو ل گئے۔

کس منہ سے ہم آپﷺ کی شفاعت کی طلب رکھیں گے؟ان لو گو ں کو آخری وقت میں جب اپنے مظالم یاد آتے ہیں تو پچھتا وا اور افسو س رہ جا تا ہے، اور توبہ کا مو قعہ بھی نہیں ملتا۔ ان لو گو ں کے برعکس ہم کمزور اور بے بس لوگوں نے اس دنیا میں جس سے پیار کیا اس نے ہمیں نفرت دی، ہم نے جس پر بھروسا کیا، اس نے ہمارا اعتماد توڑا، ہم نے جس سے امید لگائی، اس نے ہماری امید کو آگ لگا دی، جس کے ساتھ پیار کیا اس نے ایک پل میں دھو کا دے کر جدا کر دیا۔

جس کے ساتھ وفا کی۔اس نے بے وفا ئی کی۔ قصور ہمارا اپنا ہے جو ہم نے لو گو ں سے امید اور آس رکھی اور ان سب نے مشکل میں ساتھ چھوڑ دیا۔ میرا اللہ کہتا ہے کو ئی بات نہیں میرے پاس لو ٹ آؤ۔ کاش یہ امید اور عشق اپنے اللہ سے کرتے تو گھا ٹے کا سودا کبھی نہ ہوتا۔ اللہ پاک ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن ہم نے اس پر بھی یقین نہیں رکھا۔ اللہ اپنے بندو ں کو 70ما ؤ ں سے زیادہ پیار کرتا ہے (مفہوم حدیث)۔

پیارے آقاﷺ نے امت کو بے حد سچا پیار کیا اور ہر پل یاد کیا ۔ ہم نے اس کے ساتھ بھی بے وفا ئی کی۔ نہ اس برکتو ں والے سے سچا عشق کیا، نہ اس رحمتو ں والے سے امیدرکھی ، نہ سچ کا ساتھ دیا، نہ مظلو م کے ساتھ کھڑے ہو ئے۔اب ہم کیسے فلا ح پائیں۔ کیسے سکو ن پائیں۔ اصل سکو ن اللہ کی یاد میں ہے۔امیدیں اسی لیئے ٹوٹتی ہیں کہ انسان مطلبی ہے۔ اسی لیئے امید بھی اللہ سے ہو نی چاہیے بندو ں سے نہیں۔

جبکہ یقین کامل بھی اسی پر ہو نا چاہیئے۔ اور دعا میں اپنے حبیب خاتم النبینﷺ کا وسیلہ ضرور دینا چاہیئے کیو نکہ میرا ایمان ہے اللہ اپنے حبیب ﷺ کے وسیلے سے مانگی ہو ئی دعا کبھی رد نہیں کر تا۔لٰہذا لو گو ں سے امید یں وابستہ نہ کریں، اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کے ساتھ سچا عشق کریں، صرف ان سے امیدیں وابستہ رکھیں اور ان کے ساتھ تعلق مضبوط کریں پھر دیکھیں دنیا بھی ہماری اور آخرت بھی ہماری۔ انشا ء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :