
کیا ریاست کو یاد ہے؟
جمعرات 25 جون 2020

عمران نسیم
مملکت۔
الف ۔ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہکو نقصان پہچنے اور آجر و ماجور اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوقکی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس، ذات ، مذہب یا نسل ، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوکشش کے گی ۔
(جاری ہے)
ب ۔ تمام شہریوں کے لئے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر ،معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کر گی ۔
ج ۔ پاکستان کی ملازمت میں یا بصورت دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معازرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفط مہیا کرے گی ۔
د ۔ ان تمام شہریوں کےلئے جو کمزوری، بیماری یا بیررزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں ، بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک، لباس ، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی ۔
ہ ۔ پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت ، افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی ۔
مندرجہ بالا شق پڑھ کر خوشی ہوتی ہے کہ دستور میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں اور دکھ یہ ہوتا ہے کہ اور کتنا وقت لگے گا اس پر عمل کرنے میں ۔ یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جن کو مملکت نے ادا کرنا تھا ۔ ۔
اب کوئی غریب جب بھی یہ پڑھے گا تو یہی کہے گا نہ ۔ ۔ ۔ رولائے گا کیا پگلے ۔ ۔ ۔
کیا مملکت کی سیاسی جماعتوں خاص کر تین بڑی سیاسی جماعتیں جن کے پاس اقتدار رہا ہے نے اپنے سیاسی منشور میں اس ایک آئین کے آرٹیکل پر عملدرامد کو اپنا سیاسی نصب العین بنایا ہے.؟
1973 سے آج تک جو جو حکومتیں آئین کی اس شق پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں کیا انھیں اپنی ناکامی کا اعترف نہیں کرنا چاہئے.؟
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو بہترین ہے پر اس نعرے کی تشریح شاید یہ آرٹیکل ہے ۔ اگلے انتخابات پر جب سیاست دان آپ سے ووٹ مانگنے آئیں تو ان سے کم از کم یہ ضرور پوچھیں کہ آئین کے اس آرٹیکل پر آپ نے اور آپ کی جماعت نے کیا عمل کیا؟
کیا غریب صرف ووٹ دے کر لولی لنگڑی جمہوریت چلانے کا ایندھن ہے؟
جس کے ووٹ پر ایک جیسا تیسا سیاست دان ایوان اقتدار میں پہنچ کر وزیر مشئر تو بن جاتا ہے پر آئین کو پڑھنے کی جسارت تک نہیں کرتا۔ کب تک تھانہ کچڑی کی سیاست کے نام پر جمہور اور جمہوریت کو رسواء کیا جاتا رہے گا؟
اگر کسی بھی حکومت کی ترجیع میں آرٹیکل38 پر عملدرامد کرنا ہوتا یا کوکشش ہی کی ہوتی تو آج اس وبائی درو میں منک کی معاشرتی صورتحال قدرے بہتر ہوتی ۔
یہاں غریب کا معصوم سا عدالیہ سے بھی شکوہ ہے ۔ ۔ جیسا کہ ماضی قریب اور بعید میں عوامی مسائل پر سوموٹو ، کے ذریعے ان پر قانونی کاروائی کی جاتی رہی ہے پر اس اہم موضوع پر نہ سو موٹو نظر آتا ہے اور نہ ہی نظریہ ضرورت کے تحت کوئی کاروائی ۔
حساس اور احساس دونوں طاقتوں کو اس بنیادی آئینی حق پر عملدرامد کے لئے نظریہ احساسیت کے تحت ضروری اقدامات کرنا ہونگے ۔
کیونکہ غربت ختم کرنے میں ہی مملکت کی معاشی و سیاسی بقاء ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران نسیم کے کالمز
-
حجام کو باربر نگل گیا۔۔۔
جمعرات 25 مارچ 2021
-
ایجاد ضرورت کی ماں ہے۔۔۔
بدھ 27 جنوری 2021
-
آدمی یا انسان ۔۔۔؟
بدھ 23 دسمبر 2020
-
جمہوریت کی گنجائش نہیں ۔۔۔ مریخ پر
اتوار 8 نومبر 2020
-
کچھ سوال۔۔۔
جمعرات 17 ستمبر 2020
-
پیادے سے وزیر تک ۔ ۔ ۔
جمعرات 20 اگست 2020
-
باد مخالف سے نہ گھبرا اے پائلٹ
پیر 13 جولائی 2020
-
تعلیم کا حق اور جمہوریت کا ارتقاء ۔ ۔
جمعہ 3 جولائی 2020
عمران نسیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.