تعلیم کا حق اور جمہوریت کا ارتقاء ۔ ۔

جمعہ 3 جولائی 2020

Imran Naseem

عمران نسیم

آئین پاکستان میں ایک آرٹیکل 25  -اے ہے ۔ جو تعلیم کے بنیادی حق کی بات کرتا ہے ۔
اس کے تحت ۔ ریاست 5 سے 12 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔
کسی بھی نظام کی ترقی اور بقاء اس کے ارتقاء میں ہی ہے ۔ اور سیاسی ارتقاء کے بنا ء سماج جمعود کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ماہرین سیاسیات اس بات پر متفق ہیں کہ اپنی تمام تر خا میوں اور کوہتائیوں کے باوجود جمہوریت ہی بہترین طرز حکومت ہے، اس کی یہ خوبی بھی شاید اس کے ارتقاء میں ہی پوشیدہ ہے ۔


جن ممالک میں تعلیم کی شرح جتنی بلند ہے وہاں سیاسی و سماجی نظام اتنا ہی مستحکم ہے ۔
اب ذرا آئین کی مندرجہ بالا شق کو ہی دیکھا جائے ۔ جس سے مراد یہ ہے کہ پرائمری سے لے کر میٹرک تک تمام بچوں کے لئے تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔

(جاری ہے)

جسے حکومت کو پورا کرنا ہے ۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہ کسی بھی حکومت کی اولین ترجیع نہیں رہی ۔

اور اگر رہی ہوتی تو نجی اسکول تعلیم سے زیادہ منافع بخش کاروباری مرکز نہ بن گیا ہوتا ۔ اپنے اردگرد دیکھے دو ہزار روپے ماہانہ فیس سے لے کر پچاس ہزار سے زائد ماہانہ فیس وصول کرتے اسکول نظر آئیں گے ۔
جب ان ہی اسکول مافیا سے جڑے علم فروش قومی اسمبلی میں وزیر مشیر کے عہدوں پر دنددناتے ہوئے نظر آئیں ۔ تو کیا یہ مفادات کا تضاد نہیں ہے؟
کیا حکومت وقت کو ایوان اقتدار میں یہ تعلیمی دھندا کرتے کردار نظر نہیں آتے؟
کیا حکومت نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ مہنگے نجی اسکول کتنا ٹیکس دیتے ہیں یا ان اسکولوں میں پڑھانے والے امراء میں کتنے ٹیکس چور ہیں ۔

کیسے ایک رفاعی پلاٹ پر اور ٹرسٹ کے قانون کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مہنگے نجی اسکول تعلیم فروشی کا دھندہ کر رہے ہیں ؟
 جو کہ اتنا طاقت ور مافیا بن گیا ہے جس سے عدالتی حکم نامہ پر عمل کروانے کے لئے حکومت کو سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اورفیس میں کمی کا معاملہ پھر کسی نہ کسی عدالتی اسٹے کے پیچھے چھپ جاتا ہے ۔
بظاہر اگر دیکھا جائے تو یہاں تین طرح کا طبقاتی نظام ملتا ہے ۔


الف ۔ اردو میڈیم ۔
ب ۔ انگریزی میڈیم
ج ۔ مدارس ۔
ج کو تو خیر سے ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے ۔
اور الف کا یہ حال ہے کہ سرکار کو خود نہیں پتہ کتنے اسکول اساتذہ اور طلباء صرف کاغذوں تک محدود ہیں ۔ سرکاری فنڈز کی خوردبرد ۔ اقرباء پروری اور کرپشن کی بڑی بڑی کہانیاں بابوں کی سرکاری فائلوں میں گم ہیں ۔
جبکہ ب کا واحد مقصد تعلیم کے دھندے سے پیسہ بنانا ہے ۔

اور اس پیسے سے اپنی سماجی طاقت میں مسلسل اضافہ کرنا ہے ۔
اس وقت پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں ۔ یونیسف کے گذشتہ سال کے ا عداد و شمار کے مطابق پانچ سے سولہ سال کی عمر کے  بائیس اعشاریہ آٹھ ملین سے زیادہ بچے ا سکول نہیں جاتے ۔ جو کہ اس عمر کے گروپ میں موجود آبادی کا چوالیس فیصد بنتا ہے ۔ اور یہ تعداد دینا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔

جبکہ کہنے کو ہماری آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی قومی طاقت اسکول سے دور رہ کر قومی کمزوری کا باعث بن رہی ہے ۔
پاکستان اپنی سالانہ آمدن کا چار فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرتاہے ۔ کیا وزیر تعلیم نے کبھی بھولے سے بھی اس آرٹیکل کو پڑھنے کی کوکشش کی ہے؟ کیا وزیر تعلیم یا ان کے کسی دوست یا رشتہ دار کی بچے نے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے؟
آئین کے تحت تو ان لاکھوں بچوں کو اسکول لانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

کیا یہاں یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا ہے ۔ اور تلاش کرنے سے کسی سیاسی جماعت کے منشور میں تعلیم جیسے بنیادی حق کے لئے کوئی مربوط منصوبہ بندی کا ذکر نہیں ہے ۔
جہالت اور انتہا پسندی کے گپ اندھیرے کے خاتمے کے لئے مفت اور معیاری لازمی تعلیم کا بنیادی حق سے ہر بچے کو دینا ہو گا ۔ کڑوروں بچوں کو اسکول میں پڑھانا ہو گا ۔


جب تک آئین کا آرٹیکل - 25 اے حکومتی ترجیع نہیں ہو گا تب تک مملکت کی سماجی سیاسی و معاشی ترقی ناممکن ہے ۔ اور تب تک جہالت کی پٹری پر جمہوریت کی ٹرین چلتی رہے گی ۔
جمہوری اقدار کی مضبوطی اسی سے جڑی ہے کہ بچہ جمہور کو تعلیم کے حق سے محروم نہ رکھا جائے ۔ ورنہ برسوں سے بوسیدہ بدبو دار نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگانا بند کرو ۔ ۔ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :