آدمی یا انسان ۔۔۔؟

بدھ 23 دسمبر 2020

Imran Naseem

عمران نسیم

واہ جی اب تو اڑن کٹھولے بھی اڑنے لگے ۔ ہوائی ٹیکسیوں کا دور آ گیا۔ یہ کوئی سائینس فیکشن نہیں بلکہ سائنسی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خیالی دوستیاں ۔ کھلونوں سے شادیاں ۔ اور سوشل میڈیا پر  بڑھتے سماجی  تعلقات ۔ آپس میں سماجی دوری ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی اپنے موبائل کے ساتھ زیادہ وقت دیتے ہیں جبکہ ساتھ رہنے والے سانس لیتے ہوئے دوسرے جانداروں کو کم ۔

۔۔ قریب ہوتے ہوئے بھی آپس میں بہت دور۔۔۔ کیا زمانہ آ گیا ہے ماں سے زیادہ گوگل کو جناب کے روزمرہ کا زیادہ علم ہے۔ بیوی کو نہیں پتہ شوہر  صاحب کب کہاں کیا  گل کھلا  کر  کے آیا کب سویا  کب جاگا  پر گوگل خوب جانتا ہے۔ بندہ بندے کو جانے نہ جانے پر گوگل شریف سب جانے ہے۔ شوہر بیگم کی سالگرہ بھول سکتا ہے بیگم جان کو کون سا رنگ پسند ہے کبھی سوچا ہی نہ ہو شاہد  پر موبائل فون کو سب خبر ہے۔

(جاری ہے)

  یہ اسمارٹ فون بھی کیا غضب ڈہائے ہے کم بخت  سارے راز جانے ہے۔ آدمی آدمی کو پہچانے نہ پہچانے پر یہ اسمارٹ فون سب خبر رکھے ہے۔ رات کمبل میں گھس کر چھپ چھپا کر کیا دیکھے ہو سب پتہ ہے اسے۔  نکمے آدمی کا اسمارٹ فون۔۔۔ آدمی ابتک یہ نہ جان سکا یہ موبائل فون اس کا دوست ہے یا دشمن۔۔۔؟   مصنوعی ذہانت کے ذریعے ذہانت کو بڑھایا جا رہا ہے یا کنٹرول کیا جا رہا ہے؟  خوابوں کو ریکارڈ کرنے کی ٹیکنالوجی اب خواب بھی کنٹرول کرے گی۔

۔۔ 
برقی دنیا کی برق رفتار دوڑ میں آنکھوں پر پیسے کا چشمہ ٹانگے آدمی بے سمت دوڑے چلا جا ریا ہے۔۔۔  اور اس دور میں آدمی  کب روبوٹ  بن گیا اور روبوٹ کب آدمی بن جائے ۔  سمجھ نہیں آتا یہ اسمارٹ ٹیکنالوجی آدمی کو قابو کرنے کی دوڑ میں کہاں جا کر روکے گی یا آدمی کو ختم کر کے اس سے آگے نکل جائے گی؟
سپیس ایکس جیسے پروگرام حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔

زمین سے آگے زمین کی تلاش جاری ہے۔ خلاء میں اسٹیشن بن چکے ہیں۔ خلاء میں خلائی گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ زمین پر ماحولیاتی آلودگی کو خطرناک حد تک پہچانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد آدمی اب خلاء میں آلودگی کی گندگی پھلانے کی طرف رواں دواں ہے۔ ایٹمی ایندھن اور ھتھیاروں کی دوڑ میں ابتک اٹیمی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا ایسا جامع طریقہ ایجاد نہیں ہو سکا جو مستقبل میں ماحول اور جانداروں کی صحت کے لئے نقصان دہ نہیں ہو گا۔

۔ جینیٹکلی موڈیفائیڈ فصلوں کے ساتھ جانور آرڈر پر حسب منشاء با خوبی تیار کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ تجربات آدمیوں کی تیاری پر بھی سائینسی معاشی اور معاشرتی طور پر جاری ہیں۔
آئی ٹی اور اے آئی کے ذریعے نہ صرف آدمی بلکہ اس کی خواہشات کو بھی قابو کیا جاچکا ہے۔ جانوروں اور آدمیوں کے جسموں میں ڈیجیٹل چیپ با آسانی امپلاٹ کی جا رہی ہے۔


اور تو اور آدمی اور آدمی کے بچوں کے کھیل بھی ڈیجیٹل ہیں۔ ویسے بھی ہمارےہاں تو کھیل کے میدان شادیوں اور جلسوں کے اجتماعات کے لئے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔
یہ صدی تو کمپنیوں کی حکومت رہے گی۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں مصنوعی ذہانت  اور ورچئیل ڈیجیٹل  کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ذریعے ساری دنیا کی معیشت اور سیاست  کو کنٹرول کر رہی ہیں۔

   مشرق وسطٰی کا تیل ہو یا ہندوستان کے کسان کے مسائل ان کا حل حکومتوں کی پہنچ سے دور بین الاقومی کمپنیوں کے قابومیں ہے حکومیتیں تو بس کمپنی کے مفاد کی پہرہ دار ہیں۔۔۔
 یہ دور اسمارٹ فون  والے اسمارٹ آدمی کا ہے۔ اور  انٹر نیٹ شریف سماج میں آکسیجن کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ انٹر نیٹ تک رسائی بنیادی  حق میں شمار  ہوتی ہے۔ زندگی کی علامت یہ انٹرنیٹ ہے کیا ؟  اور یہ سوال بھی ہے کیا واقعی آدمی کی زندگی انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں؟
سائنس اتنی ترقی کرتی جا رہی ہے. اس ترقی کی انتہا کب کیا اور کیسے ہو گی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بنیادی سوال کی صورت میں چیلنج ہے سا ئینس کے لئے۔

۔۔ کیا سائینسی ترقی اس بنیادی سوال کا جواب دے سکے گی؟
  کیا کبھی آدمی کو واپس انسان بھی بنایا جا سکے گا؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :