ایجاد ضرورت کی ماں ہے۔۔۔

بدھ 27 جنوری 2021

Imran Naseem

عمران نسیم

پڑھا تھا ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ پر سرمایہ درانہ معاشی دور میں سوچنا پڑھتا ہے کہ ایجاد ضرورت کی ماں ہے۔ اب دن کے آغازاور اختتام پر دانت صاف کرنے کے لئے توتھ پییسٹ اور پلاسٹک کے برش سے کریں۔ اور دانت صاف کرنے کے لئے پہلے پیسٹ تیا ر ہوئی یعنی ایجاد ہوئی پھر اسے ضرورت بنانے کے لئے پرزور مارکیٹنگ کی گئی یہاں تک کہ مردوں کو یقین ہو جائے  کہ خوبصورت خاتون جناب کے قریب سے تب ہی مسکراتی ہوئی گزرے گی جب مخصوس پیسٹ سے مخصوس مقدار میں روزانہ دو مرتبہ دانت صاف کئے جائیں گے اور دیکھتے دیکھتے یہ ایجاد  ہر انسان کی ایک اہم ضرورت بن گئی۔

   یعنی سوچا جائے کیا دو سو سال پہلے کے انسان دانت نہیں رکھتے تھے یا ان کے دانت کمزور تھے پر فوسلز تو دانتوں کی کمزوری کی گواہی نہیں دیتے۔

(جاری ہے)

پھر یہ سفر یہاں نہیں رکا بلکہ سفید چمک دار دانتوں کے ٹی وی توڑ اشتہارات نے تو ایک چوہا ریس ہی لگا دی نت نئے بڑانڈز اور ان کی جادوئی مسکراہٹ کا دعویٰ نسوانی حسن اور مردوں کی لمبی قطار  جو  متحرمہ کی ایک سفید چمکدار مسکراہٹ پر پر مٹے ۔

یعنی برتن مانجنے والا صابن ہو یا لیٹرین صاف کرنے والا مائع صابن نما کچھ سب کا ایک ہی وعدہ رکہے سفید چمکدار۔۔۔ اور انکے اندھا دھند بڑھتے کسٹمرز۔۔۔۔
پھر ایک کولائی دور آیا ۔ کوئی سوا سو سال پہلے حادثاتی طور پر ایک دوائی پوری دینا کا مقبول ترین مشروب بن گئی اور تیز کھانا عرف فاسٹ فوڈ  کا تو اس کا چولی دامن والا ساتھ ٹھرا پر کسی نے یہ سوچنے لی جرات ہی نہیں کی کہ اس چولی کے پیچھے کیا ہے اور اس  بوتلی کھانے کے مقاصد کیا ہیں۔

بوتل برگر ساتھ تو یہ ناگزیر ہے اور اس ایجاد کو بھرپور اشتہارات کے ذریعے روزمرہ کا حصہ بنا دیا گیا دنیا میں اس جگہ بھی فروخت ہو رہا ہے جہاں پینے  کا پانی نایاب ہے۔ اور اسی سے حوصلہ پکڑتے ہوئے سادہ پانی کو بوتل میں قید کر کہ فروخت کرنے کا سرمایہ درانہ خیال آیا۔ اور پھرمنڑل واٹر۔۔ بوتل میں قید پانی۔۔ کا منافع بخش دور آیا،  اب ایک  چینی  پانی بیچنے والے تاجر کا دینا کے دولت مند ترین افراد میں شمار ہوتا ہے۔

عام نلکے سے آنے والے پانی کے خلاف بھر پور مارکیٹنگ مہم چلائی گئی ۔۔ اس پر بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کی گئی اور سب سے زیادہ سب کے لئے میسر قدرتی شے پانی کو  فروخت کرنے کے لئے کنٹرول کیا گیا۔ اور اب یہ بنیادی ضرورت زندگی غریب آدمی کی پہنچ سے دور بوتل میں فروخت ہوتا ہے۔ بوتل والا پانی استیٹس سمبل بن گیا ہے۔
اور ایک دن انٹرنیٹ ایجاد ہوتا ہے اور تیزی سے گلوب پر چھا جاتا ہے اوزان کی لئیر کی طرح۔

۔۔ اور ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو کا جادو تیزی سے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اب  فیس بک ۔ یو ٹیوب اور واٹس ایپ  کی شکل اختیار کر چکا ہے۔  ایسا جادو چلا کہ اس ڈیجیٹل ایپ کی زمبیل کی زمین پر اپنا پتہ بنانا سماجی زندگی کا اہم ٹھرا  بلکہ یہ نیا دیجیٹل سماج  پرانا حقیقی سماج ہی نگل گیا۔ اس ڈیجیٹل نفسا نفسی کے عالم میں آدمی آدمی کے درمیان ایک اسمارٹ فون ہے جو کہ تمام تر سوشل میڈیا اسلحہ سے لیس ہے۔

  اس دور میں  لگتا ہے جو انہیں استعمال نہیں کرتا اس کا شمار ان پڑھ جاہلوں میں ہونے لگے گا۔۔۔ کیا عجب ڈیجیٹل دنیا ہے جس کا پیٹ ڈیٹا کی شکل میں آدمی بھرتا ہے آدمی پڑھتا ہے آدمی  لڑھتا ہے آدمی بگھتا ہے آدمی ہی پھستا ہے اور اس آدمی ہی کا ڈیٹا کمپنی دوسری کمپنی کو بیچ کر منافع کماتی ہے۔ اور آدمی کی سوچ کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ آدمی کی سوچ کو قابو کر کہ نئی ایجاد کرتی ہے۔

۔۔ اور اسمارٹ فون اس جن کا طوطا ہے جس کے قبضے میں اسے استعمال کرنے والا ہے۔۔۔ ہیں نہ  جدید دنیا کی  جدید ترین شکل ۔ ۔۔
آج کیپٹل ازم ترقی کرتے کرتے ہائیپر کنزیومر ازم میں داخل ہو چکا ہے اور آدمی بھی ایک کموڈیٹی بن چکا ہے۔ ۔ ۔ ایک سے جس کے وجود جس کے خیلات کی ایک قیمت ہے۔ جہاں ہر ہونے والی نئی ایجاد کی ضرورت ایک خود کار نظام کے تحت بنا دی جاتی ہے۔

  نفع اور نقصان کے اس معاشی دور میں ہر ہونے والی ایجاد کو ضرورت کے ہتھیار کے طور پر  آدمی کو پیش کیا جاتا ہے۔
سوئس چاکلیٹ ۔سوئس لان ۔ سوئس پیسہ سوئس اکاونٹ جس میں منی لاڈرنگ کا پیسہ محفوط کیا جاتا تھا بھی اور ہے بھی۔ اور اب پیش ہے سوئس ہوا۔۔ جی ہاں آج تازہ ہوا بھی فروخت ہو رہی ہے۔ جو سوئس پہاڑوں سے جار میں بند کر کے فروخت کی جا رہی ہے۔

۔۔  کیسا دور ہے سانس لینے کے بنیادی حق کے لئے ہوا بھی خریدنا پڑے۔ ۔۔
کیا اب  کبھی کوئی ایجاد نفع و نقصان کے بغیر صرف انسانی ضرورت کے لئے کی جائے گی جس میں انسانی ہمدردی اور ضرورت بنیادی اصول ہو ۔ کیونکہ کورونا ویکسین کی تیاری اور فروخت نے یہ موقع بھی گنوا دیا جس کے تحت انسانی فلاح و بہبود پہلی ترجیع ہوتی نفع نہیں۔۔۔  یا پھر شاید آدمی کو نفع و نقصان کے عدسوں والی عینک اتارنے کے لئے  ایک اور وبائی سانحہ کی ضرورت ہے؟  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :