سوشلستان کے ہیروز قانون کے نرغے میں

پیر 26 اکتوبر 2020

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

سوشل میڈیا کا ظہورتو دس بارہ سال قبل ہوا ہے او رقلیل عرصے میں ایک بین الاقوامی میڈیا کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی آدھی سے زائدآبادی سوشل میڈیا سے وابستہ ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ درجنوں نئے اکاونٹ تخلیق کئے جاتے ہیں‘جس سے سو شل میڈیا صارفین کی تعداد میں مسلسل ا ضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک طفلِ مکتب سے لے کر بزرگوں تک سب ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

سوشل میڈیا جہاں تصویر کے روشن پہلو کی مانند دورِ جدید میں تبلیغ و تشہیر کا ایک مئوثر زریعہ ہے وہیں نوجوان نسل کے ذہنوں میں اخلاقی گراوٹ پیدا کر کے طرح طرح کی برائیوں کو جنم دیتا ہے۔یہ برائیاں جوں جوں معا شرے میں متعدی امراض کی طرح پھیلتی ہیں تو پورا معاشرہ تباہ کُن حالات کی لپیٹ میں آکر زوال کے ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یوں معاشرتی اقدار اور آداب کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک،یوٹیوب، ٹیوٹر،انسٹاگرام اور ٹک ٹاک صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔جو سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے عوامی مقبولیت اورسستی پذیرائی حاصل کرنے کے لیے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنا سوچے سمجھے مختلف ویڈیوزاورتصاویر وائرل کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں ٹک ٹاک اسٹار نے پاکستان کے حساس ترین ادارے کو مضحکہ خیز بنایا۔

اسی طرح جعلی اکاونٹس چلانے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ جو ملک میں انتشار پھیلانے اور دوسرے کئی منفی مقاصد کے لئے سوشل میڈیابطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کا ذیادہ تر استعمال سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن کرتے ہیں‘ جو اپنے موقف کو درست ثابت کرنے اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے تضحیک آمیز کارٹونز،من گھڑت الزامات پر مبنی تحریریں،تصاویر، ویڈیوز ، اور مختلف طریقوں سے جھوٹا پروپیگنڈا کر کے شرفاء و معززین کی پگڑیاں اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔

اپنی رائے کو مدلل بنانے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملا تے ہیں جبکہ دوسروں کی رائے کو بے وقعت اور سطحی قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔وہیں معروف شخصیات بھی اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے غیر مصدقہ ویڈیوز چلاتی ہیں۔اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مخصوص نام نہاد لفافی صحافیوں نے مخالف جماعتوں کے رہنماوں کی کردار کشی اورہر قسم کی ہرزہ سرائی کے لئے سوشل میڈیاکو میدان ِ جنگ بنایا ہوا ہے۔

اپنے پسندیدہ پارٹی لیڈر کی قصیدہ گوئی اور حمد سرائی اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ہر طرح کی غلیظ زبان ، نازیبا الفاظ کا استعمال اور ہر اخلاق سے گری ہوئی پوسٹ کوان سے نسبت دے کر شئیر کر کے معاشرے میں بے چینیپھیلانے کے موجب بن رہے ہیں۔ان کے شر سے کوئی سیاسی، سماجی،تجارتی، صحافتی ، علمی اور مذہبی شخصیت کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ گھر کے کسی گوشے میں بیٹھے یہ لوگ شخصی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے اشتعال پر مبنی مواد سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔

جواباً ایک دوسرے کے خلاف لفظوں کے وار ہوتے ہیں۔نازیبا جملے داغے جاتے ہیں۔ایک دوسرے کو تھپڑ رسیدنے اور دست و گریباں ہونے کے واقعات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں اوریوں پورے ملک کا امن برباد ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈینس جیسے قوانین تقریباً دس سال پہلے سے نافذ ہیں،جس کے تحت سائبر کرائم مثلاً نفرت انگیر تقاریر، مذہی منافرت ، دھوکہ دہی ،غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے ، بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنے ،انٹرنیٹ کے زریعے دہشتگردوں کی فنڈنگ ،انٹرنیٹ ڈیٹا کا غلط استعمال اور موبائل فون سموں کی غیر قانونی خرید وفروخت پر عدالت کی طرف سے مختلف نوعیت کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

وطنِ عزیز میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لئے اخلاقیات اور شرم و حیا سے عار ی ان نام نہاد سوشل میڈیا صارفین کی اخلاقی تربیت ناگزیر ہے۔ اس بنا پر حال ہی میں سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کو روکنے کے لیے سائبر کرائم ونگ کی ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے،جو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے اور ابلاغ کو مثبت استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل بنا ئے گی۔

امید کی جاتی ہے کہ ا دارے اپنی زمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے متحرک ہوجائیں گے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی کڑی نگرانی کر کے سیاست اور صحافت کی آڑ میں انتشار پھیلانے اور وطنِ عزیز کو تباہی کی طرف دھکیلنے والوں کا گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لایا جائے گا تاکہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کرسیاسی، علاقائی ،نسلی،لسانی ، مذہبی منافرت اور ملک دشمن سرگرمیوں کو بامِ عروج تک پہنچانے کا عمل یقینی طور پر رک سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :