
جسمانی سزا کی ممانعت،بل منظور
پیر 29 مارچ 2021

اقبال حسین اقبال
آپ میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اکثر سرکاری،غیر سرکاری اسکولوں اور دینی مدارس میں طلبہ پر اساتذہ کے ہاتھوں تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔بعض اساتذہ کی جانب سے سزا کی زیادتی کے سبب اکثر بچے مر بھی چکے ہیں اور کئی بچے سزا کے خوف سے ابتدائی سطح پر ہی تعلیم کو خیرباد کر چکے ہیں۔
(جاری ہے)
تعلیمی اداروں اور کام والی جگہوں میں سزا کی ممانعت کے حوالے سے ماہ فروری میں قومی اسمبلی میں ایک بل "علاقہ دارلحکومت اسلام آباد امتناع جسمانی سزا بل 2020" کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔بل کا متن کچھ یوں ہے کہ بچوں کو تھپڑ مارنا،چابک،چھڑی، جوتے یا لکڑی سے پٹائی کرنا،بچے کو ٹھڈا مارنا،جھنجوڑنا،بالوں سے پکڑنا،کان کھینچنا، بچوں کو تکلیف دہ حالتوں میں رکھنا،دھمکانا،خوفزدہ کرنا اہانت،الغرض کسی بھی نوعیت کی تکلیف پہنچانا سزا تصور کی گئی ہے۔بچوں پر تشدد کے مرتکب افراد کی ملازمت میں تنزلی،معطلی اور جبری ریٹائر کیا جائے گا اور ایسے افراد مستقبل میں کسی ملازمت کے اہل نہیں ہوں گے۔
اس بل کے تحت جہاں اساتذہ کو خبردار کیا گیا ہے وہیں طلبہ کو کھلی چھوٹ بھی دی گئی ہے۔مثلاً یہ کہ ایک بچہ روزانہ لیٹ سے آتا ہے،اکثر غیر حاضر رہتا ہے،ہوم ورک نہیں کرتا ہے،نقل مارتا ہے،ٹسٹ میں فیل ہوتا ہے،کلاس میں بدمزگی پیدا کرتا ہے یا اساتذہ سے بدتمیزی کرتا ہے تو ایسی صورت میں موجودہ قانون کے مطابق ٹیچر سزا دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔تو آخر ٹیچر ایسا کیا کرے کہ جس سے کلاس میں موجود تمام بچے پڑھائی کی جانب راغب ہوں۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا جہاں اساتذہ کو کسی بھی قسم کی سزا سے روکا گیا ہے وہیں طلبہ کو سکول کے رولز اور اساتذہ کا احترام کے حوالے سے بھی قانون بنایا جاتا۔قانون کی پاسداری نہ کرنے والے طلبہ کو سکول سے خارج کرنے،تعلیمی اسناد کی منسوخی یا بھاری جرمانے کی ادائیگی کی بل بھی پاس کر لیتے۔تاکہ انصاف کا میزان مساوی ہوتا مگر یہاں تو الٹا گنگا بہتی ہے۔
بچوں پر جسمانی سزا کے متعلق علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں کہ بچے کی پہلی غلطی پر اسے سزا دینے کے بجائے نظر انداز کیا جائے،دوسری مرتبہ غلطی دہرانے پر اسے علٰحدہ کر کے سمجھایا جائے۔اگر بچہ اپنی غلط حرکات سے باز نہ آئے تو اسے کلاس میں سب کے سامنے تین چھڑیاں ماری جائے۔چین،جاپان اور سنگاپور جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مختلف سزائیں مختص کی گئی ہیں۔اسلامی احکامات کے مطابق اگر بچہ دس سال کی عمر میں دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتے تو اسے کوڈے مارنے کی حکم ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اساتذہ اور والدین کی سختی ہی بچوں کی بھلائی کے لیے ہوتی ہے۔
بچوں کے لیے ایسی سزائیں دی جا سکتی ہیں جو ان کی تعلیمی کارکردگی کے لیے موثر ثابت ہوں۔جیسے استاد کی جانب سے بچے کو شاباش کا نہ ملنا،بریک کا بند کرنا،چھٹی کے بعد روک کر ان سے اضافی کام لینا اور اسکول کے چھوٹے چھوٹے کام کرانا بھی سزا ہے۔اسی نوعیت کی سزاؤں سے بچہ تعلیم سے اچاٹ ہونے کے بجائے حصول تعلیم کی جانب راغب ہو سکتا ہے اور انہیں مستقبل میں ذمہ دار شہری بننے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔لہٰذا بچوں کی مثبت کردار سازی کے لیے تعلیمی اداروں میں مار پیٹ کی بجائے مشفقانہ کلچر کو فروغ دیا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
اقبال حسین اقبال کے کالمز
-
ویلنٹائن ڈے سے انکار،حیا ڈے سے پیار
بدھ 16 فروری 2022
-
بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022ء
ہفتہ 5 فروری 2022
-
نسلِ نو کو منشیات سے کیسے دور رکھیں؟
جمعہ 28 جنوری 2022
-
ہاجرہ مسرور حقوق نسواں کی علمبردار
منگل 18 جنوری 2022
-
اُردو شاعری میں غزل کی اہمیت
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
جون ایلیا ایک منفرد شاعر
منگل 14 دسمبر 2021
-
بانو قدسیہ اُردُو ادب کی ماں!
منگل 30 نومبر 2021
-
تعلیمی اداروں میں ثقافتی یلغار
پیر 22 نومبر 2021
اقبال حسین اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.