پیامِ اقبال اور ہماری زندگی

منگل 9 نومبر 2021

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

مکرمی!زندہ قومیں اپنے آباواجداد کی قربانیوں اور احسانات کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔آج پاک و ہند سمیت ترکی،ایران،بنگلہ دیش اور جرمنی میں جس عظیم ہستی کے 144 ویں یومِ ولادت پر خراجِ عقیدت و خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔دنیا اس عظیم شخصیت کو مشرق کا ستارہ،حکیم الامت اور مصّورِ پاکستان کے القابات سے جانتی ہے۔9 نومبر ملتِ اسلامیہ کے پاسبان علامہ محمد اقبالؒ نے سیالکوٹ کے جس گھر میں آنکھ کھولی،اسے"اقبال منزل" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اقبال کے اس آبائی مکان کے بارے میں یہ قول پوری طرح صادق آتا ہے کہ گھر مکان سے نہیں مکین سے ہوتا ہے۔اس مکان کے مکینوں نے دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی ایک ایسی ہستی کو جنم دیا کہ جس نے پوری انسانیت بالخصوص مسلم امہ کو زوال کی پستیوں سے نکال کر عروج کی بلندیوں تک پہنچایا۔

(جاری ہے)


علامہ کا جنم ایک ایسے دور میں ہوا جب ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد پر جمود و سکوت طاری تھا۔

لوگ دنیاوی مال کی محبت میں مبتلا،عبادات کی روح سے خالی اور سینے حرارت قرآن پاک سے تہی تھے۔نوجوانوں کے چہرے چمک دار مگر اندرونی کیفیت تاریک تھی اور مایوسی کی گھپ اندھیروں میں گرے ہوئے تھے۔یورپی ممالک نے مسلمانوں کو فکرِ معاش دے کر ان کی روحیں قبض کر کے انہیں ناکام بنا دیا تھا۔مسلمان انتشار،خلفشار اور ذلت و پستی کی نچلی سطح کو پہنچ چکے تھے۔

وہ جمود اور تقلید کا شکار اور تبدیلی پر مائل نہ تھے۔ان کی تعلیم ثقافت،مذہب،زبان گویا ہر چیز پر مغرب کی بالادستی تھی۔
عصرِ حاضر مَلک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی رُوح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
اقبالؒ سے قبل شاعری عموماً شاعروں کی ذات کے گرد گھومتی تھی،شعراء عاشق و معشوق کی کہانیاں سناتے،زمانے بھر کی شکایتیں اور فریادیں کرتے تھکتے نہیں تھے۔

ایسے میں اقبالؒ شاعری میں مقصدیت لے کر آئے۔ان کی شخصیت،سوچ اور فکر مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی۔وہ پژمردہ اور شکستہ دلوں کے لئے امید کی کرن بن کر درخشاں ہوئے۔انہوں نے روایتی شاعری عشق و عاشقی،فرقت و قربت،ہجرو وصال،آہ و بکا،لب و رخسار اور گیسو کی بجائے قوم کی حیاتِ نو اور اسلام کی نشاة ثانیہ کو اپنا موضوع کلام بنایا۔علامہ نے خود کو کبھی شاعر نہیں سمجھا،جیسا کہ خود فرمایا نغمہ کجا و من کجا'لیکن اقبالؒ نے شاعری کو امت کی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہوئے ان بے ضمیر جسموں میں غیرت،عزت اور عظمت کی عملی روح پھونک دی۔

اقبالؒ کا ہر مصرعہ ہر کلام اور ہر ایک لفظ اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے اور بڑی فضیلت کا حامل ہے۔انہوں نے اپنے پرُ اثر کلام کے ذریعے مسلمانوں کے ادبار کے اسباب معلوم کیے۔
اک ابرِ نو بہار فضاؤں پہ چھا گیا
اقبال اس چمن کی رگوں میں سما گیا
یومِ اقبالؒ جہاں بیداری،حریت اور خودی کا پیغام لاتا ہے وہیں اپنے دامن کو علم ادب کے حسین ستارے سجائے تشنگانِ علم کا استقبال بھی کرتا ہے۔

اقبال کو شاعر مشرق کا لقب ضرور ملا لیکن اس کی شاعری اور کلام کو ہم جغرافیائی اور علاقائی حصار میں مقید نہیں کر سکتے ہیں،کیونکہ علامہ ایک آفاقی شاعر ہیں۔ان کے کلام میں ہر مکتبِ فکر کے لوگوں کے لئے خواہ وہ بچے ہوں یا بوڑھے،معلمین ہوں یا متعلمین،سیاست دان ہوں یا فلاسفر،ڈاکٹرز ہوں یا انجینئیرز غرض ہر ایک نصیحت اور رہنمائی سے وہ بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔

علامہ اقبالؒ کی فکر و دانش اور ان کا پیغام ہر دور اور ہر نسل کے لیے ہے۔موجودہ اور آنے والی نسلیں علامہ اقبالؒ کے پیغام سے استفادہ کر کے اپنے ذاتی مسائل اور ملکی مسائل حل کر سکتی ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال قوم کے جوانوں کو شاہین سے تشبیہ دے کر بڑا باز کرتے تھے۔

ان کو شاہین کی صفات یعنی سخت کوشی،بلند پرواز،دوراندیشی اور مشکلات سے نبردآزما ہونے کی تلقین کرتے تھے۔
تو ہے شاہین پرواز ہے کام ترا
ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں
مگر افسوس آج کا شاہین تو کرگس کا روپ دھار چکا ہے۔اس کی خودداری ختم جبکہ بلند پرواز تنزلی کا شکار ہو چکی ہے۔اس کی تیز نگاہ بھی تنگ نظری میں مبتلا ہو چکی ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو ایسے لوگوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہیں جو اقبالؒ کے کلام کی معنی خیزی سمجھ نہیں پاتے۔ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے نوجوان کنگن پہنے پھرتے ہیں۔
اسیرِ زلف و رخسا و لب جاناں ہوا مسلم
کوئی اقبال سے کہہ دے شاہین مر گیا تیرا
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے تصورات اور نظریات سے دور ہیں۔

ظاہری طور پر ان کا نام تو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں۔لیکن ان کے مقصد سے مطلقاً واقف نہیں ہیں۔افسوس ہم پاکستان کو وہ مملکت نہ بنا سکے جس کی آرزو علامہ اقبالؒ کے دل میں تھی۔شخصیات کے تذکرے اور فضائل کے بجائے ان کے پیغام پر زور دینے کی ضرورت ہے۔اگر ہم ملتِ پاکستان کو سرفراز دیکھنا چاہتے ہیں تو محض کسی جلسے یا تقریب کا انعقاد کر کے یا بیت بازی کے ذریعے اقبال کو داد دینا کافی نہیں بلکہ پیام اقبال کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنا ہو گا۔

پاکستان کے نوجوانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر صفاتِ شاہین پیدا کرتے ہوئے وقت کے چیلنجزز کا مقابلہ کرنے کے لیے علامہ اقبالؒ کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ان میں وہ خوبیاں اور اوصاف پیدا ہو سکیں جو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لازم ہوتی ہیں اور قوم کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کُمند

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :