عوام اور فوج کا رشتہ

بدھ 4 جون 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

فوج میں رجمنٹیشن سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں۔فوجی آفیسر ہو یا جوان وہ اسی رشتے سے منسلک ایسی ایسی تکالیف برداشت کر لیتا ہے جو عام زندگی میں ممکن نہیں اگر ہم ایک کیڈٹ کی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ایک سویلین جسکی عمر اٹھارہ سال ہوتی ہے کسطرح ایک نئے ماحول،نئے رشتے،نئے معاشرے اور قبیلے سے منسلک ہوجاتا ہے۔پاکستان ملٹری اکیڈمی میں آمد کیساتھ ہی ایک جنرل،ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم وچراغ سے لیکر ایک سپاہی،عام دیہاتی اور کسان کے بیٹے کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیڈٹ کالج ،ایچ ای سین،امریکن اور گرامر سکولوں سے لیکر سبی،سکردہ،کوہلو،دکی،آواران،مکران،خاران،سندھ کے دیہاتوں اور گوٹھوں کے سکولوں سے پڑھے کیڈٹ کو جنٹلمین کا نام دیا جاتا ہے۔

کاکول آمد پر کسی کی برادری،قبیلہ،دولت،سٹیٹس نہیں پوچھا جاتا اور سب کو اپنا سامان اٹھا کر اپنے کمروں میں لیجانا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک جیسا ماحول،ایک جیسی تربیت اور دوران تربیت ایک جیسی مشکلات کا سامنا ان نوجوان افسروں میں ایک نیا جذبہ ایک نیا رشتہ اور تعلق پیدا کرتا ہے جو زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہتا ہے۔ایسا ماحول جوانوں کو بھی میسر آتا ہے جو چند سالوں میں نہیں بلکہ دو سے تین دیہائیوں پر محیط ہوتا ہے۔

میدان اپنے افسروں اور ساتھیوں کے ہمراہ نہ صرف زندگی کا بہترین حصہ گزارتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکالیف میں معاون و مدد گار بھی ہوتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ ایک شخص کی اوسط زندگی ساٹھ سال ہے جس میں پرائم لائف کے پہلے تیس سال وہ ایک ڈسپلن اور ضابطے کے تحت گزارتا ہے۔اس ڈسپلنڈ لائف میں اسکے کھانے،پینے،سونے،جاگنے،ایکسر سائز کرنے سے لیکر دشمن کیخلاف نبرد آزما ہونے کے اوقات کار مقرر ہیں۔

وہ اپنے ساتھیوں کمانڈروں کے ہمراہ کبھی شمالی علاقوں اور کشمیر میں منفی پچاس ڈگری کے منجمند اوقات میں برف کے مورچے (ایگلو)میں بیٹھ کر ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے اور کبھی اسی موسم میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ برف پوس پہاڑوں پر گشت کرتا ہے تاکہ دشمن رات کے اندھیرے میں مقدس سرزمین پر اپنا ناپاک قدم نہ رکھے۔ان مشکل ترین برفانی علاقوں سے وہ اپنے ان ہی ساتھیوں کے ہمراہ تپتے صحراؤں میں چلا جاتا ہے اور ریت کے طوفانوں کا ہی نہیں بلکہ دشمن کا بھی مقابلہ کرتا ہے وہ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے سینکڑوں میل دور وطن کی حفاظت کرتا ہے تاکہ اہل وطن کی آزادی اور عزت پر آنچ نہ آئے۔

وہ ایک عام مزدور جتنی تنخواہ لیتا ہے مگر شکوہ نہیں کرتا ایک سیاستدان جو ایئر کنڈیشنڈ ماحول کاعادی ہے او اپنے آپ کو جدی پشتی مسلم لیگی کہتا ہے اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنت ارضی مادر وطن کے محافظ کو گالیاں دیتا ہے تو 343سیاستدان تالیاں بجا کر اسے داد دیتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نجی ٹیلیویژن چینل پر ایئر مارشل(ر)شاہد لطیف سے پوچھتے ہیں کہ آپ کس کی نمائندگی کرتے ہو؟ رانا صاحب فیصل آباد کے ہیں اس لیے جگت بازی ان کی گفتگو کا حصہ ہوتی ہی ،رانا صاحب ریٹائرڈ فوجی کو شرمندہ کرنے کا پروگرام بنا کر آئے تھے۔

شاہد لطیف کہتے ہیں کہ نہ میں فوج کا نمائندہ ہوں اور نہ ہی ریٹائرڈ فوجیوں کا۔۔! میں کہتا ہوں کہ ایئر مارشل نے سراسر غلط کہا اور جگت بازی کا جواب موثر انداز میں نہ دیا ایئر مارشل ہو یا جنرل یا ایڈمرل سپاہی ہو یا سیلریا پھر ایئر مین وہ سروس میں ہو یا ریٹائرڈ وہ ہر حال میں فوج کا نمائندہ ہے وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی فوج کا نمائندہ ہے فوجی نہ ریٹائرڈ ہوتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے۔

اسکے کارنامے اور کردار زندہ رہتے ہیں تل پترا،سبونہ،بی آربی کا کنارہ،ہلی کا محاذ،چھور کا صحرا،بڈھا کھنہ کا پہاڑ،کارگل اور چونڈہ کا محاذ جب تک ہیں شہیدوں کی روحیں ان کی محافظ رہینگی۔ امن کی آشا،سیفما کے چکمے،بھارت سے تجارت اور بھارتیوں سے عشق سرگودھا کی فضاؤں سے ایم ایم عالم کے طیارے کی گونج ختم نہیں کرسکتے۔جسطرح پرندے ایک دوسرے کی بولیاں سمجھ لیتے ہیں اسی طرح ایم ایم عالم کے طیارے کی گونج پاک فضائیہ کے ہر طیارے کی روح ہے۔

ایسا ہی کوئی طیارہ کبھی شاہد لطیف اور ایاز چوہدری نے بھی اڑایا ہوگا جس میں ایم ایم عالم اور راشد منہاس کے طیارے کی گونج سنائی دیتی ہوگی۔شاہد لطیف اور ایاز چوہدری اسی طیارے کی وجہ سے ایئر مارشل بنے تو پھر شرمندگی کیا ہے اور وہ بھی رانا ثناء اللہ کے سامنے جو خواجگان کا ہم زبان ہے وزیر اعظم پاکستان اور رانا ثناء اللہ کے قائد کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ فوج کو گالیاں دینے والوں کا منہ بند کرتے اور نہ ہی سپریم کمانڈر اور صدر پاکستان جناب ممنون حسین کو خواجہ آصف کی تقاریر سنائی دیں تو پھر فوج کی نمائندگی ہر فوجی کا حق ہے ہر ریٹائرڈ فوجی پر فرض ہے کہ وہ بد زبان اور بد کلام صحافیوں اور سیاستدانوں کے خلاف اپنی آواز بلند کریں تاکہ باوردی فوجی جوان سیاہ سیاست اور گندی صحافت پر توجہ دیے بغیر دیکھے اور ان دیکھے دشمن کا پورے جوش اور جذبے سے مقابلہ کریں ہرریٹائرڈ فوجی کا فرض ہے کہ وہ خود اور اپنے خاندان کے ہمراہ اپنے علم،اپنے قلم اور زبان کے ذریعے دشمن کے ایجنٹوں اور فوج کا حوصلہ پست کرنیوالوں کے خلاف جہاد کرے۔

اس جہاد کی بنیاد تدبر،شائستگی اور شرافت ہو اور ساری قوم انکا ساتھ دے۔فوج ملک اور قوم کی توہین کرنیوالے چینلوں اور اخباروں کا بائیکاٹ کرے۔فوج کے حق میں سیمینار اور میٹنگیں منعقد کریں اور ہیروز کے کارناموں سے معاشرے کے ہر شخص کو با خبر کریں۔گندی اور بیہودہ زبان اور جگت بازی کا دلیری سے جواب دیں تاکہ سیاست کے مداری اور صحافت کے کھلاڑی اپنی زبانیں بند کرنے پر مجبور ہوجائیں۔


پچھلے برس مئی کے مہینے میں مجھے وادی لیبیا جانے کا اتفاق ہوا تو دوران سفر بھمبر،میر پور اور جہلم کے کچھ جوانوں سے ملاقات ہوئی دوران سفر بات چیت سے پتہ چلا کہ یہ سب فوجی جوان ہیں اور چھٹی لیکر لیپا جارہے ہیں رانا ثناء اللہ صاحب آپ کو پتہ ہے کہ لیپاکہاں ہے؟ اور جہلم سے کتنا دور ہے ؟ نہیں ۔۔۔!آپ کو پتہ نہیں ہوگا چونکہ آپکا سارا علم پنجاب کی سیاست اور آپکا پاکستان فیصل آباد سے لاہور اور جاتی عمرہ کے جاگیر تک محدود ہے آپکی پارٹی میں جنرل قادر بلوچ بھی ہیں اور سرحدوں کے وزیر ہیں آپ ان سے لیپا کے مطلق پوچھ سکتے ہیں اب ذرا ان جوانوں کا احوال سنئے یہ نوجوان فوجی لبیا میں ان جگہوں پر تھوڑی دیر کیلئے کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھنے جارہے تھے جہاں ان کے والدین نے جام شہادت نوش کیا تھا وزیر اطلاعات اور وزیر اعظم کے نمائندہ خاص فرماتے ہیں کہ انھیں میڈیا سے عشق ہے اور فوج انکا ایمان ہے حضور عشق اور ایمان ایک ہی چیز ہے ایمان جب عشق کی منزل پر پہنچتا ہے تو عاشق بندہ مومن بن جاتا ہے بقول اقبالاسی بندہ مومن سے خدا پوچھتا ہے کہ بتا تیری رضا کیا ہے، بتوں سے عشق خدا پر ایمان،یہ کونسا دین ہے اکبر کے دین الٰہی میں بھی اسکا ذکر نہیں اور نہ ہی مولانا روم  نے کسی ایسے عشق کا ذکر کیا ہے جسکی بنیاد دھوکہ دہی اور عاشقان وطن کی توھین ہو۔

جب مسلمان مومن کا ایمان پختہ اور یقین کامل ہو تو وہ سیفما کی محفلوں میں بیٹھ کر امن کی آشا کے گیت نہیں گاتا اور نہ ہی ملت کے محافظوں کی تذلیل پر زیر لب مسکراتا ہے اور سات روز کی خاموشی اختیار کرتا ہے۔
فوجی کیسے ریٹائرڈ ہوکر لاتعلق ہوسکتا ہے البتہ جنرل قادر بلوچ،جنرل ترمذی،جنرل عبدالقیوم اور درجن بھر فوجی ایسے ہیں جو واقعی ریٹائیرڈ ہیں اور فوج کی نمائندگی سے دستبردار ہوچکے ہیں شاید ان پر امن کی آشا اور سیفماکے بھوت کا اثر ہے پھر میاں صاحب اور خواجہ صاحبان کے عشق نے انھیں ریٹائرڈ کر دیا ہے ایک فوجی کیلئے نواز لیگ میں رہ کر فوج پر زہر آلود تیر برسانے والوں کے ساتھ رہنا بڑی ہمت اور حوصلے کی بات ہے کیا خواجہ آصف کی تقرریر ان فوجی جرنیلوں کو کوئی پیغام نہ دے سکی یا پھر وہ سمجھ نہیں سکے یہ سب سمجھ سے باہر ہے رانا صاحب کیلئے اطلاع ہے کہ اولاد بڑھاپے کی لاٹھی اور والدین کا سہار تصور کی جاتی ہے قرآن مجید میں ذکر ہے کہ” ہم تمہیں بیٹے اور مال دیکر تمہارا امتحان لینگے“میرے گاؤں کے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں رہا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یونٹ میں اپنا بیٹا یا بھائی چھوڑ آیا ہے یہ رسم صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی پاک فوج کی ہر یونٹ اور رجمنٹ میں ایسے جوان اور آفیسر ہیں جو کلیم پر ان یونٹوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں حیرت کی بات ہے کہ کوئی سیاستدان اپنا بیٹا فوج میں نہیں بھیجتا مگر فوج پر تنقید کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتا۔

ترقی اور جمہوریت غلامی اور باجگزاری میں ممکن نہیں جمہوریت پر امن معاشرے میں ہی پروان چڑھتی ہے اور ترقی سرمایہ دارانہ استحصال کا نام نہیں اٹھارہ کروڑ پاکستانی حمزہ شہباز،مونس الٰہی اور بلاول زرداری کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں مقدس پارلیمنٹرین قوم کے مقدر کے دیوتا ہیں۔سندھ کی مقدس ہستیوں نے حفاظتی بند توڑ کر اپنے فارم بچائے اور سندھی عوام کو سیلاب کی نظر کر دیا پنجاب میں سستی روٹی کا چکر چلا کر گندم افغانستان سمگل کر دی دانش سکولوں پر اربوں روپے خرچ کیئے پہلے سے موجودسکولوں کو بھینسوں کے باڑوں میں بدل دیا گیا پرویز الٰہی نے اپنی انتخابی مہم پڑھا لکھا پنجاب کے نعرے پر چلائی کتابوں کی جلدوں پر اپنی تصاویر سجائیں مگر الیکشن میں منہ کی کھانی پڑی۔

شہباز شریف نے سلیبس ہی بدل دیا اور نئے قومی ہیروز متعارف کروائے۔جمہوریت کی بحالی عوام کی خوشحالی ہمارے سیاستدانوں کی اولین ترجیح ہے جسکا انجام بد حالی پر ہوتا ہے جمہوریت کا مطلب بانٹ کا کھانا اور پچھلے کھائے پیئے کو قانونی شکل دینا ہے پاکستانی جمہوریت منافع بخش بزنس ہے اور سارے بزنس مین اسمبلیوں میں بیٹھ کر بڑے بڑے سودے طے کرتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کی طرح ہر محکمہ موجود ہے مگر حکومت اور عوام کو کسی محکمے پر اعتبار نہیں فوج واحد محکمہ ہے جو حکمرانوں،سیاستدانوں اور شترے مہار میڈیا والوں کو پسند نہیں مگر سب کو اسی پر اعتبار ہے سیاستدانوں نے اربوں روپے لوٹے اور تعلیم عام کرنے کے بہانے گھوسٹ سکول قائم کر دیئے باغات کے گرد اونچی دیواریں کھڑی کی اور اندر محل نما ڈیرہ اور عیاشی کا اڈہ قائم کرلئے گھر سے پکی سڑک ڈیرے تک لے گئے اور میلوں پر پھیلی باغات کی حفاظی دیوار کے عالیشان گیٹ پر ماڈل ہائی سکول کا بورڈ لگا دیا گھوسٹ استاد بھرتی کیئے اور ماہانہ لاکھوں روپیہ استادوں کی تنخواہوں کی مد میں وصول کرنے لگے اسی طرح صحت کے مراکز قائم کیئے اور اپنے گھوڑے،گائیں اور بھینسیں ان مراکز میں رکھ لیں۔

واپڈا،ریلوے،پی آئی اے اور سٹیل مل میں سیاسی بھرتیوں کا طوفان برپا کیا اور ان اداروں کو تباہ کرکے اربوں کھا لئے۔کرپشن،بددیانتی،اقربا پروری اور عیاری کی حد بڑھ گئی تو سب نے یک زبان ہو کر کہا فوج کو بلاؤ فوج کو بلاؤ کراچی کا امن بحال کرے فوج کو بلاؤ سوات پر قبضہ ہوگیا ہے فوج کو بلاؤ واپڈا کا براحال ہوگیا ہے فوج کو بلاؤ گھوسٹ سکولوں اور استادوں کا سراغ لگائے۔

فوج کو بلاؤ زلزلہ زدگان کی مدد کرے ،فوج کو بلاؤ سیلاب زدگان کو بچائے،فوج کہاں ہے؟فوجی جوان کہاں ہیں؟فوج کو بلاؤ مردم شماری کرے،فوج کو بلاؤ الیکشن کروائے۔ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں میرے وطن کی فوج کہاں ہے؟سناہے وہاں ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں ہمارا کوئی علاج کر دے،ہمیں اصل دوا دے،جعلی ڈاکٹروں اور نقلی دواؤں سے کوئی ہمیں بچائے۔

ہمیں ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں ،ہمیں پولیس پر اعتبار نہیں،عدالتیں انصاف نہیں دیتیں،وکیل بھاری فیس مانگتے ہیں،برانڈڈ اور نامور وکیل عوام کے حق میں بیان دیتے ہیں انصاف نہیں دلاتے،ہمیں الیکشن کمیشن پر اعتبار نہیں ووٹ کسی کو دیتے ہیں جیت کوئی جاتا ہے فوج کو بلاؤ امن قائم کرے فوج کہاں ہے؟اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی مسیحا فوج،محافظ فوج،قابل اعتبار فوج،جعلسازی اور کرپشن کے نام سے ناواقف فوجی جوان،میرے وطن کا ڈھول سپاہی،جرأتوں کا نشان،عظمت کی پہچان،سرحدوں کا محافظ،سرفروش و سربکف جیالا اور جی دار جوان،شہادت کا خواہش مند،ہر لمحے سربلند،عزتوں کا رکھوالا،ماں کا لاڈلہ،جوانمرد جیالا۔

ان تمام رشتوں کے بعد عوام کے دلوں میں فوج کے خلاف نفرت ڈالنے کی ہر کوشش نہ صرف ناکام بلکہ عوام اور فوج کو مزید پاس لانے کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا حکومت اور اس کے چیلے چمچمے اس خام خیالی سے خود کو نکال کر اپنے محافظوں کی عزت و تقریم کو یقینی بناکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :