افواج پاکستان اور سیاستدانوں کی قربانیوں کافرق

بدھ 11 جون 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

امن کی آشا اور سیفما کے پرستاروں،ترقی اور جمہوریت کے علمبرداروں،ٹیکس چوروں اور قرضہ خوروں ،بھارتی چالبازوں کے مہروں اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے ناسوروں کو پتہ نہیں فوج اور عوام کا کیا رشتہ ہے اس ملک کا ہر غریب فوج کا نمائندہ ہے اس ملک کا ہر ذی الشعور فوج کا ترجمان ہے۔عوام کو صرف فوج پر اعتبار ہے اور فوج ہر لمحے عوام کی مدد گار ہے رانا صاحب نے سیاسی جگت بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایئر مارشل شاہد لطیف سے پوچھا کہ کیا آپ فوج کے ترجمان ہیں رانا صاحب خواجہ صاحبان اور امن کی آشا کے نام پر ملک کو بدامنی میں دھکیلنے والوں کے ترجمان جناب پرویز رشدید کسی دن کسی فوجی جوان سے پوچھیں تو وہ کہے گا ہاں میں فوج کا ترجمان ہوں،میرا باپ اور دادا بھی ترجمان تھے اور میرا بیٹا بھی ترجمان ہوگا۔

(جاری ہے)

وہ کسی مزدور کسان اور محنت کش سے پوچھیں تو وہ بھی کہے گا کہ ہاں میں فوج کا ترجمان ہوں مجھے پولیس،پٹواری،ڈپٹی کمشنر،ایس پی،ڈی آئی جی،سیکرٹری،سینیٹر،ایم این اے،ایم پی اے،وزیر،مشیر،وکیل،جج،گورنر،وزیر اعظم حتیٰ کہ صدر پاکستان پر بھی اعتبار نہیں مگر مجھے سرحدپر کھڑے سپاہی پر اعتبار ہے جرائم کے اڈے اور تربیت گاہیں، جیلیں اور تھانے ہیں ۔

پولیس جرائم پیشہ لوگوں کی محافظ اور عوام کی دشمن ہے کچہریوں میں جتنے مقدمات ہیں سب پٹواریوں اور تھانیداروں کی وجہ سے ہیں جنھیں سیاستدانوں،قبضہ گروپوں،سمگلروں اور دہشت گردوں کی حمایت حاصل ہے وکیل سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اور ججوں کی تعیناتی میرٹ،قابلیت اور اعلیٰ درجے کی ایمانداری پر نہیں بلکہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی مرضی پر ہوتی ہے۔

جج کے خلاف بات کرناجرم ہے اور عدالت کی توہین ہے فوج کے خلاف بات کرنا آزادی اظہار رائے ہے؟ آزاد میڈیا،آزاد عدلیہ،مقدس پارلیمنٹ اور باعزت و باوقار پارلیمنٹرین کے سامنے بے یارومددگار فوج اور بے بس و بے کس عوام۔ آزاد میڈیا حکومت کی شان اور حکومت میڈیا کی ترجمان،فوج ملک و قوم کی محافظ اور عزت و قار کی پہچان،گلی کا عام آدمی فوج کا ترجمان جواب دیگا کہ اسمبلی کے ہر ممبر اور سیاستدان کے پاس دوسرے ممبر اور سیاستدان کے گناہوں کے ثبوت ہیں صدور اور وزرائے اعظم پر کرپشن کے الزامات ہیں عدالتوں کے پاس ثبوت بھی ہیں پر سب لوگ امیر کبیر ہیں ان کے اثاثے بیرون ملک ہیں اور کمائی کے ذرائع پاکستان میں ہیں ان کی ٹکٹ،پاسپورٹ،جہاز ہرلمحے تیار ہیں جبکہ فوج کا سپاہی ان سب آلائیشوں سے پاک ملک و قوم کی حفاظت پر معمورکسی صلے یا لالچ سے کوسوں دور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہے جمہوریت،ترقی اور امن حفاظت کے بغیر ممکن نہیں جناب پرویز رشید کی دلیل میں غلیل اور رانا صاحب کی جگت میں دلیل ہے چونکہ جس کام کی ابتداء خواجگان نے کی تھی اسکی انتہا میڈیا ہاؤس نے کی ہے سیفما اور امن کی آشا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں او ریہ سکہ چانکیائی چالوں کی مثال ہے جناب پرویز رشید کو پتہ ہوگا کہ حضرت داؤد کے پاس غلیل اور چالوت کے پاس دلیل تھی دلیل دانشور کا اثاثہ ہے جاہل کا ہتھیار نہیں جاہل کی دلیل بے جان اور بے وزن ہوتی ہے اسلام کا ابدی پیغام آیا تو یہبودونصاریٰ نے من گھڑت دلیلوں کے انبار لگا دیئے اور کفر و شرک کی حمائت میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا خدا کا فرمان ہے کہ یہیودو نصاریٰ ایک دوسرے کے دوست اور مسلمان مومنین کے دشمن ہیں اسی طرح ان کی دلیلوں کا بھی ذکر ہے کہ یہ اسلام کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے بھونڈی دلیلوں کا سہارہ لیتے ہیں مشرکین مکہ کے پاس بھی دلیلوں کی کمی نہ تھی مگران کی سب سے دلیلیں کفر و شرک پر مبنی تھیں امریکہ کے پاس بھی بیشمار دلیلیں تھیں جنکا سہارہ لیکر افغانستان ،عراق اور لیبیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔

ہر فتنہ پرداز اور امن دشمن کے پاس ایک شیطانی دلیل ہوتی ہے شیطان ابلیس نے رب کا حکم نہ مانا آدم  کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا چونکہ ابلیس کے پاس بھی ایک دلیل تھی۔ انصار عباسی نے آئی ایس آئی کے چیف سے استعفٰے کا مطالبہ کیا اور دلیل پیش کی کہ اس طرح آئی ایس آئی کی بیشنگ نہ ہوتی انصار عباسی کی دلیل میں آئی ایس آئی کی بیشنگ کا تو جوازنہیں بلکہ اس بیان ہی سے اس کا مدعا سمجھ آ جاتا ہے،چھے گھنٹے کی ہرزہ سرائی کے بعد بیشنگ کا خیال کسی بیوقوف ہی کی سوچ ہوسکتی ہے کسی نے سچ کہا کہ چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے مگر یہاں تو چور چوری اور ہیرا پھیری کی دلیل بھی دیتا ہے کسی نے پوچھا ارسلان افتخار کے کیس میں افتخار چودری سے استعفیٰ کیو ں نہ مانگا ؟دلیل دی کہ ملک ریاض کے پاس ثبوت نہ تھا حیرت کی بات ہے کہ ملک ریاض کے پاس ثبوت نہ تھا تو مسٹر دلیل ذرا اپنے گریبان میں جھانکو او یہ بھی تو بتاؤ کہ جنرل ظہیر الاسلام کے خلا ف تمہارے پاس کونسا ثبوت ہے؟ وزیر اطلاعات کی لاڈلی باتوں میں جتنا لاڈوپیار فوج کے خلاف زہر اگلنے والوں کیلئے ہے ۔

کاش وہ اپنا تھوڑا سا پیار پیارے وطن کے محافظوں کیلئے بھی رکھ لیتے ۔میاں صاحب گوادر میں کھڑے آرمی چیف کی طرف بار بار اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم ایک ہیں ہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ابھی ہم ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے لگتا ہے کہ میاں صاحب سیفماء کی ہدایات پر چل رہے ہیں اور فوج کیخلاف مکمل منصوبہ بندی کے تحت صف آراء ہیں پہلے خواجہ صاحبان حملہ آور ہوئے تو صدر اور وزیر اعظم خاموش رہے فوج میں ابال آیا تو کاکول جا کر جنرل راحیل شریف کی شان میں ایک قصیدہ پڑھ کر اپنے آپ کو تسلی دے دی جو ایک کامیاب حملے پر خواجگان کیلئے داد تحسین ااور میاں صاحبان کیلئے باعث تسکین تھا۔

دوسرا حملہ نجی ٹیلیویژن چینل سے کروایا اور اپنے ترجمان وزیر کے ذریعے پیغام دیا کہ ہم وطن دشمن پراپیگنڈہ مشینری اور اسکے کل پرزوں کیساتھ ہیں غلیل والوں کیساتھ نہیں۔ اور وہی ہوا جس کا اظہار تمام صاحب بصیرت لوگ کر رہے تھے۔
پیمرا کے حالیہ آرڈر کے بعد نجی چینل ایک بار پھر حملہ آور ہوگا اور کھل کر دلیلانہ بمباری کریگا چونکہ اسے آئینی اور عدالتی طاقت بھی میسر ہوگی۔

اس میں شک نہیں کہ میاں برادران تجارتی تعلقات کی عالمی اور بھارتی بالادستی قبول کرنے کی خام خیالی میں مبتلا ہیں میاں برادران اور تاجران انجمن لاہوریاان کا ایک مخصوص ٹولہ ذاتی مفادات کو قومی خوشحالی اور مفادات کا لیبل لگا کر قوم کو بیوقوف بنانے کا تہیہ کیئے ہوئے ہے مفاد پرستوں کے اس ٹولے کو صحافیوں کے ایک ٹولے کی حمایت بھی حاصل ہے جو صحافت کی آڑ میں اپنی ذاتی NGOاور دیگر کاروبار چلاتے ہیں صحافیوں میں ایک طبقہ لینڈ مافیا سے بھی تعلق رکھتا ہے جبکہ دیگر دو نمبر ٹھٹھہ بازی میں نہیں سٹہ بازی بھی شامل ہے جبکہ NGOکی آڑ میں فارن فنڈنگ کا سیلاب قومی سلامتی کے اداروں ااور ملکی مفاد کی بات کرنیوالوں کیلئے ایک عذاب ہے میاں صاحبان کے قول و فعل میں تضاد کا یہ حال ہے کہ حکمران خاندان نے بیرونی دوروں پر صحافیوں کوساتھ نہ جانے کا ڈھونگ رچایا ہے مگر شاہی سواری کے پیچھے ایک چارٹڈ جہاز بھی اڑتا ہے جس میں مخصوص صحافیوں کا ایک ٹولہ سیر سپاٹے کیلئے چل نکلتا ہے یہ لوگ بیرون ملک فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں جبکہ شاپنگ اور دیگر عیاشیوں کیلئے انھیں غیبی قوت ڈالروں کے بیگ تھما دیتی ہے انوسٹی گیٹو رپورٹروں کی انوسٹی گیشن کرپٹ صحافیوں کی طرف کیوں نہیں جاتی؟کیا انھیں پتہ نہیں کہ کس کس صحافی نے اسلام آباد میں کاروبار کھول رکھے ہیں؟ اور ان کاروباری صحافیوں کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے۔

کیا انھیں یہ خبر نہیں کہ صحافیوں کی NGOکو کون فنڈنگ کرتا ہے اور یہ این جی اوز کیا کام سر انجام دیتی ہیں ۔ فوج اور اس کے ذیلی ادارے باشعور اور با حیاء افراد پر مشتمل ہیں وہ ایک خاندان،ایک قبیلہ اور ایک برادری ہیں فوج اور قوم کاخون کا رشتہ ہے یہ رشتہ ایسا ہے جس میں کوئی اونچ نیچ نہیں اور نہ ہی کوئی رخنہ اور رنجش ہے۔سپاہی کا بیٹا جرنیل ہے اور جرنیل کے گھر میں اسکے شہید بھائی یا بیٹے کے خون کی خوشبو ہے۔

جنرل راجہ اکبر خان سیالکوٹ سے خنجراب تک کے علاقے کے محافظ تھے1971ء کی جنگ میں انکا بیٹا کیپٹن راجہ ظفر اکبر میدان جنگ میں شہید ہوگیا تو وہ شہادت کی خبر سنکر دعا گو ہوئے اور دفتر کی طرف چل پڑے بیگم صاحبہ نے پوچھاکہ آپ کا بیٹا شہید ہوگیا ہے مگر آپ نے ایک آنسو تک نہیں بہایا۔جنرل صاحب نے کہا کہ میرے بہت سے بیٹے ہر روز شہید ہوتے ہیں اور ظفر ان ہی میں سے ایک تھا۔

نواز لیگ کی نامور سیاستدان عظمیٰ بخاری نے فرمان جاری کیا کہ فوج اور جیو دو ادارے ہیں۔ بیشک یہ دو ادارے ہیں ایک قوم کا اور دوسرا حکومت اور حکمران خاندان کا۔ اگر میاں صاحبان کی بیشنگ پالیسی نہ ہوتی تو عظمیٰ بخاری،خواجگان اور پرویز رشید کے بیانات پر صاحب اقتدار صاحبان میں تھوڑی بہت جنبش ضرور ہوتی۔
بیشنگ زدہ صحافیوں کو شاید پتہ نہیں کہ فوجی رشتہ خونی رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط اور شک شبے سے بالا تر ہے بیگم نواز شریف کا بیان ریکارڈ پر موجودہے کہ جب پولیس نے گھیرا ڈالکر میری کارکو لفٹر کے ذریعے اٹھایا تو جانثاران میاں نواز شریف بھاگتے ہوئے نظر آئے۔

پھر ان سیاسی بھگوڑوں نے اپنی الگ جماعت بنائی اور بھاگتے بھاگتے جنرل مشرف کے گھر چلے گئے ۔دس بارہ سال جنرل مشرف کے لنگر سے فیض یاب ہوئے اور جنرل مشرف کے زوال پر واپس جاتی عمرہ چلے گئے۔
اب ذرا فوجی جانثاروں کی چند مثالیں بھی سنیں۔سیاہ چین کے محاذ پر ایک ہی یونٹ کے آٹھ افسروں نے ایک دوسرے کی جان بچانے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ان میں سے کوئی بھی موت کے ڈر سے میدان سے نہ بھاگا۔

دوسپاہیوں نے اپنے کمانڈگ آفیسر کو نیچے گرایا اور ان کی جان بچانے کیلئے ان پر لیٹ گئے دشمن کی یلغار ختم ہوئی تو زخمی کمانڈر کو اٹھایا گیا انھوں نے بتایا کہ کسطرح دو جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنے کمانڈر کی جان بچائی۔نانگا پربت کی مہم کے دوران سپیشل سروس گروپ کے میجر ہمدانی برفانی دراڑ میں گر کر شہید ہوگئے۔دراڑ وسیع تھی اورمیجر ہمدانی کا جسد خاکی کئی سو فٹ کی گہری کھائی میں نظر آرہا تھا۔

موسم مزید خراب ہوا تو باقی لوگوں کو مجبوراً واپس آنا پڑا موسم کھلتے ہی کیپٹن خالد بشیر اپنے جوانوں کے ہمراہ اپنے دوست کا جسد نکالنے نانگا پربت پر پہنچے مگر جونہی وہ رسوں کی مدد سے نیچے اترے ایک برفانی تودہ ان پر آگرا اور کیپٹن خالد بشیر جو اپنے والدین کی واحد اولاد تھے ہزاروں من برف کے نیچے دب گئے کیپٹن خالد بشیر کے حادثے کے بعد فوج نے مزید مشن بھیجنے سے منع کر دیا تو میجر زاہد خان اور ان کے چند ساتھی فوج سے چھٹی لیکر اپنے طور پر گلگت گئے او راپنی جیب سے کوہ پیمائی کا سامان خریدا۔

نانگا پربت میں اس مقام پر گئے جہاں ان کے دو ساتھی برف کے نیچے دبے ہوئے تھے۔میجر زاہد خان اور ان کے ساتھی دن رات برف کھودتے رہے مگر وہ تہہ تک نہ پہنچ سکے اس مشقت کی وجہ سے میجر زاہدفراسٹ بائیٹ کا شکار ہوگئے اور موسم کی خرابی کی وجہ سے واپس آگئے۔اس مشن پر میجر زاہد کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ گئیں مگر اس بہادر سپائی نے ہمت نہ ہاری۔دوسرے سال میجر زاہد پھر اس مقام پر پہنچے تو برف کے طوفانوں نے سب آثار مٹا دیئے تھے اور دونوں افسروں کا مقام شہادت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گلیشیئر میں بدل چکا تھا میجر زاہد بعد میں کرنل بنے اور ملک دشمن عناصر کیخلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

کیا کسی سیاسی جماعت،این جی او یا پھر میڈیا کی آڑ میں مافیا گینگ چلانے والوں کے پاس کوئی ایسی مثال ہے ؟ برٹش سکالر جان بینسJohan Baynesکا قول ہے کہ :۔
Nothing has ever been made safe until The soldier has made safe The field where the building shell be built and the soldier is the scaffolding untill it has been built and the soldier gets no reward but honour.
میاں صاحب پلیز:۔وطن کے سپاہی کو ڈس آنر نہ کریں بھارت،بھارت نوازصحافی،این جی اوز اور پرائیویٹ چینلوں کے بل بوتے پر آپ دولت تو کما لینگے مگر ملک کا وقار اور قوم کی عزت نیلام کر دینگے۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور وقت کم ہے جو کچھ ٹیلیویژن سکرینوں پر دکھائی دیتا ہے وہ سراب ہے حقیقت نہیں ۔قوم دکھی ہے اور فوج کیساتھ ہے یہ فوج ہے NGOیا سیاسی جماعت نہیں آپ فرق سمجھ جائیں اور فوج کو فتح کرنے کی مہم ترک کردیں۔یاد رکھیں کہ سپاہی کبھی مرتا نہیں اسکی قبر کی مٹی سے ایک اور سپاہی پیدا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :