پی ٹی آئی حکومت کے لیے ایک اور بہت بڑا دھچکا!

ہفتہ 27 نومبر 2021

Jamal Abdullah Usman

جمال عبداللہ عثمان

وزیراعظم عمران خان کی آج سے 10 سال پہلے کی تقاریر سن لیں۔ ٹاک شوز میں ان کی گفتگو سماعت کرلیں۔ 15 برس قبل کی تقاریر بھی مل جاتی ہیں، انہیں سن لیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ ان کی سیاست کا بنیادی مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔
اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان بہت تواتر کے ساتھ کہتے تھے کہ پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔

یعنی پاکستان میں جتنا ٹیکس ریونیو اکٹھا ہوتا ہے، تقریبا اس کےبرابر اس ملک میں سالانہ کرپشن ہوتی ہے۔ چار ہزار ارب روپے سے بھی زائد۔
وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو 90دنوں کے اندر ہم کرپشن کا خاتمہ کرلیں گے۔ لیکن یہ دعویٰ پورا ہونے کے بجائے اسے مسلسل دھچکے لگتے رہے۔ پہلا دھچکا اس وقت لگا جب اپنے ہی اتحادی کامل علی آغا نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی حکومت میں کرپشن کے ریٹ دُگنے ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)


پھر ایک مستند دھچکا اس وقت لگا جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کردی۔ جس سے پتا چلا کہ پی ٹی آئی حکومت کے تین سالوں میں پاکستان کرپشن انڈیکس میں 116سے 124پر چلا گیا ہے۔ یعنی مسلم لیگ ن کی جس ”کرپٹ حکومت“ میں ہم 116نمبر پر تھے، پاکستان تحریک انصاف کی ”صاف شفاف“ حکومت میں ہم نے 8درجے کی ”ترقی“ کرلی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایسی ہی رپورٹس وزیراعظم عمران خان، بطورِ اپوزیشن راہنما لہرالہرا کر حکومت کی کرپشن کا پردہ چاک کرتے تھے۔


اس کے بعد بھی سلسلہ رُکا نہیں۔ بے شمار اسکینڈلز آئے، جن سے متعلق یہ صاف نظر آتا رہا کہ کرپشن کے لیے ماحول پہلے سے بھی سازگار ہے۔ اسی ہنگام میں مئی 2021ء میں خبریں آئیں کہ وزارتِ خزانہ نے آڈیٹر جنرل کو کورونا اخراجات سے متعلق رپورٹ شائع کرنے سے منع کردیا ہے۔ کچھ لوگوں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ کورونا فنڈز کے اندر سنگین بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور حکومت شرمندگی سے بچنے کے لیے کوئی ”اور“ راستہ تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔


اس طرح حکومت اس ایشو کو روکنے کے لیے چھ ماہ تک ٹالنے کی کوشش ہوتی رہی۔ لیکن خدا بھلا کرے آئی ایم ایف کا۔ اس کے شدید دباؤ پر اب اسے اس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے چند دیگر شرائط کے ساتھ ایک اہم شرط یہ بھی عائد کی تھی کہ اگر حکومت پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی مزید اگلی قسط لینی ہے تو یہ آڈٹ رپورٹ اسے جاری کرنی پڑے گی۔


آج ایکسپریس ٹریبیون کے معروف صحافی اور رپورٹر شہباز رانا نے بڑی تفصیل کے ساتھ خبر دی ہے۔ آپ پڑھیں گے تو چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ کس طرح کورونا کے دوران میں مہنگے داموں وینٹی لیٹرز خریدے گئے؟ کیسے کچھ اداروں کو اضافی رقوم کی ادائیگیاں ہوئیں؟ کس طرح یوٹیلیٹی اسٹورز کے فنڈز کا ناجائز استعمال ہوا؟ کیسے ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ میں 25ارب سے زائد کی سنگین بے ضابطگیاں ہوئیں؟ کس طرح 5 لاکھ ”اپنوں“ کو نوازا گیا؟ کیسے جعلی بائیومیٹرک کے ذریعے رقوم نکلوائی گئیں؟ اور کیسے وزارتِ دفاع اور این ڈی ایم اے نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی اس پر مٹی ڈالی جائے گی؟ اس بار بھی ان لوگوں کو نشانِ عبرت نہیں بنایا جائے گا جنہوںنے اس ملک کے پسے ہوئے طبقے کے مال کو شیرِ مادر سمجھا؟ تین سال گزرچکے ہیں، کیا پی ٹی آئی اس بار بھی اپنے کرپشن کے خلاف نعرے کی لاج نہیں رکھ سکے گی؟ کیا یہ موقع نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اس رپورٹ پر کارروائی کرکے یہ ثابت کرے کہ ہم نے جتنے نعرے لگائے، وہ محض نعرے نہیں تھے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :