ٹی ایل پی کا مسئلہ کیا ہے؟

ہفتہ 30 اکتوبر 2021

Jamal Abdullah Usman

جمال عبداللہ عثمان

حکومت نے ایک بار پھر کالعدم مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ”دو دو ہاتھ“ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کل شام کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے الگ الگ پریس کانفرنسز کیں۔ دونوں کی زبانیں آگ اُگل رہی تھیں۔ فواد چوہدری کے انداز سے یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ خود بندوق اُٹھاکر تحریک لبیک کے خلاف ”جہاد“ کرنے نکل پڑیں گے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید کے تیور بھی بدلے ہوئے تھے۔
تحریک لبیک کا مسئلہ کیا ہے او رحکومت کیوں اسے درست طریقے سے ہینڈل کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے؟ کیا واقعی تحریک لبیک اتنا مضبوط گروہ بن چکی ہے کہ وہ ریاست کو چیلنج کرسکتی ہے؟ جب اور جس وقت چاہے، ریاست کو سرنگوں کرسکتی ہے؟ یا پھر یہ سب کسی بڑی سیاسی گیم کا حصہ ہے اور انتخابات سے پہلے ایسی فضا بنائی جارہی ہے جس سے ثابت ہو کہ تحریک لبیک پنجاب بلکہ پاکستان کی بہت بڑی سیاسی قوت ہے۔

(جاری ہے)


ممکن ہے آپ اسے ”سازشی تھیوری“ کہیں۔ لیکن آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ 8مارچ 2021ء کو وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ندیم ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ممکن ہے اگلے انتخابات میں ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام اکٹھے ہوکر الیکشن لڑیں، جبکہ وزیراعظم عمران خان کسی ”اسلامی فورس“ کے ساتھ اتحاد کرلیں۔ ندیم ملک نے ان سے پوچھا کہ آپ ”تحریک لبیک“ کی بات کررہے ہیں؟ شیخ رشید نے کہا کہ اب سب باتیں مجھ سے تو نہ نکلوائیں۔

یہی بات شیخ رشید احمد نے اگلے دن عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں کہہ دی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوتا رہا، وہ آپ کے سامنے بہت مختصر انداز میں رکھتا ہوں، ممکن ہے کڑی سے کڑی مل سکے۔ اس انٹرویو کے صرف ایک ماہ بعد اپریل میں یہ جماعت میدان میں اُتری۔ انہی شیخ رشید نے ان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ انہیں ”اچھے بچے“ کے طور پر پیش کیا اور ویڈیو کے ذریعے ان کے تمام مطالبات ماننے کا اعلان کردیا۔

فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد لانے کی بات خود شیخ رشید احمد نے کی۔ لیکن اگلے ہی دن انہی شیخ رشید احمد نے اس جماعت پر پابندی لگاکر پورے پاکستان کو حیران کردیا۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ حکومت اتنا بڑا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ناقابلِ یقین!!!
اب آگے آجائیں! پابندی کے ساتھ ہی کہا گیا کہ اب ہم سپریم کورٹ جاکر اس کے خلاف ریفرنس دائر کریں گے۔

الیکشن کمیشن بھی اس پر پابندی لگادے گا اور اس طرح یہ جماعت ایک قصہ پارینہ بن جائے گی۔ لیکن سات ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی چھائی رہی۔ کوئی ہل جل نظر نہیں آئی۔ وزارتِ داخلہ میں اس جماعت پر پابندی ختم کرنے کے لیے سماعتیں ہوئیں اور یہی نظر آنے لگا کہ یہ سب ایک محض اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ اسے ضمنی انتخابات میں الیکشن لڑنے کی کھلی آزادی دی گئی۔

اپنی سرگرمیاں قائم رکھنے کے مواقع دیے گئے اور ایک بار پھر 12 ربیع الاول کے بعد یہ تنظیم شہ سرخیوں میں آگئی۔
تب ایک با رپھر شیخ رشید نمودار ہوئے اور انہوں نے فرمایا کہ یہ تنظیم ”کالعدم“ ہے لیکن اس پر پابندی نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماگئے کہ تحریک لبیک پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ یہ بھی انہی کی زبانی پتا چلا کہ کالعدم تنظیم کے سربراہ سے جاکر ملاقاتیں کیں اور ان کے تمام مطالبات ماننے کی حامی بھی بھرچکے ہیں۔

اور تو اور اگلے ہی دن 350افراد کو رہا کردینے کی خبر بھی خود شیخ صاحب نے میڈیا کو بتادی۔ یہ تکلف البتہ نہیں کیا کہ ان 350افراد کو کس عدالت میں پیش کیا گیا؟ کس نے ان کی رہائی کا پروانہ جاری کیا؟ کیا یہ سرزمینِ بے آئین ہے جس کا جی چاہے اندر کردے اور جب چاہے آزاد فضا میں چھوڑدے؟
لیکن اگلے ہی دن ایک بار پھر سب حیران وپریشان جب اعلان ہوا کہ اس تنظیم کو اب ”عسکری جماعت“ کے طور پر ”ٹریٹ“ کیا جائے گا۔

اسے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ حیرت بنتی ہے جب صرف ایک دن پہلے وزیر داخلہ اسے پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت کہہ رہے ہیں اور محض 24 گھنٹے بعد اسے دنیا کی خطرناک ترین تنظیموں کے ساتھ اس کا تقابل کیا جارہا تھا۔
ممکن ہے کہ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوں، اسے سمجھ نہ آتی ہو کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اور ممکن ہے کہ حکومت یہ سب اخلاص کے ساتھ کررہی ہو۔

وہ ملک اور قوم کا ہی سوچ رہی ہو۔ لیکن یہ بات اتنی آسانی کے ساتھ ہضم ہونے والی نہیں۔ پاکستان کی یہ بدقسمت تاریخ رہی ہے کہ بہت چھوٹے چھوٹے سیاسی مقاصد کے لیے یہاں ایسے گروہوں کو نہ صرف بنایا گیا، بلکہ انہیں استعمال کرکے پھینکا بھی گیا۔ دُکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ایسے گروہوں میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہوتی ہے اور وہ ملک وقوم کی بہتری میں حصہ ڈالنے کے بجائے اس کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ اب بھی یہی ہورہا ہے۔ کاش! اس بار ایسا نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :