پی ٹی آئی کو جیت مبارک۔۔۔ مگر گیم ابھی باقی ہے!

جمعہ 19 نومبر 2021

Jamal Abdullah Usman

جمال عبداللہ عثمان

کل پی ٹی آئی حکومت سرخرو ہوئی۔ اپوزیشن کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لاتعداد بل منظور ہوگئے۔ سب سے اہم ترین بل؛ الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق۔
قانونی اور آئینی ماہرین کے خیال میں پی ٹی آئی کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ کئی دریا پار کرنے ہیں۔

یہ بھی کہ ان دونوں قوانین سے اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کا پھل کوئی اور کھاتا ہے یا پاکستان تحریک انصاف کو نصیب ہوتا ہے؟ ان سب کو ایک طرف رکھ کر لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ پی ٹی آئی نے جو کہا تھا، وہ کردکھایا۔ کل کا دن اس کا تھا اور اسے پورا حق ہے کہ وہ اس پر جشن منائے۔
حکومت کو خوش ہونے کا حق اس لیے بھی بنتا ہے کہ اپوزیشن کا اعتماد کچھ دنوں سے بڑھا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

یہ کہنا شروع ہوگئی تھی کہ سینیٹ چیئرمین، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئیں گے۔ ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں۔ ہم جس وقت چاہیں گیم پلٹ سکتے ہیں۔
لیکن میری نظر میں گیم اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ سیاست ممکنات کا نام ہے۔ قانونی اور آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوگیا تو اتنی آسانی کے ساتھ اس کا دفاع نہیں کیا جاسکے گا۔

اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسے عدالت میں چیلنج کرنے جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کہیں اس کا انجام بھی خفیہ ووٹنگ سے متعلق حکومتی کیس جیسا نہ ہوجائے؟ آپ کو یاد ہوگا پی ٹی آئی حکومت نے اس کے لیے آرڈی نینس بھی پاس کیا اور اس کا ارادہ یہ تھا کہ سینیٹ الیکشن اسی سے کروائے جائیں۔ خواہش کے باوجود عدلیہ بھی اسے نافذ نہیں کرپائی۔
پھر ایک وجہ اور بھی ہے۔

آپ ہزار بار کہیں کہ پی ٹی آئی نے آئینی ذمہ داری پوری کرکے قانون سازی کرلی ہے۔ اسے حق ہے کہ اسی قانون سازی کے ذریعے ہی انتخابات کروالے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی عام قانون نہیں۔ ملک میں اس وقت تین بڑی جماعتیں ہیں۔ اور ان میں سے دو جماعتیں اس کی شدید ترین مخالف۔ ایسے قوانین کے لیے اتفاقِ رائے کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ن لیگ نے اپنے دور میں الیکشن ایکٹ 2017ء منظور کروایا تو ایک بھی رُکن ایسانہیں تھا جس نے مخالفت کی ہو۔

اس کے باوجود 2018ء انتخابات کے تنازعات اب تک نہیں سنبھال سکے تو ایسے الیکشن کو کیسے تسلیم کیا جاسکے گا، جو ایک ایسے قانون کے تحت ہوگا جس پر سرے سے ”اتفاقِ رائے“ ہی نہیں ہوا۔
پھر ایک اور بڑا اہم پوائنٹ۔ اس پورے ایشو پر الیکشن کمیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وہ انتخابات کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ ایک آئینی ادارہ۔ جس کے اختیارات کی وسعت اس سے بھی کئی زیادہ ہے جتنی سمجھی جاتی ہے۔

ظاہر ہے کہ انتخابات یہی ادارہ کرتا ہے اور اسے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ”آن گراؤنڈ“ کیا مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ مشین کے ذریعے کیا ایک ہی دن میں پورے ملک کے اندر انتخابات کروائے جاسکتے ہیں؟ جس مشین کو ابھی ادنیٰ پیمانے پر بھی ٹیسٹ نہیں کیا گیا، اس کو اتنے بڑے انتخابات کے لیے استعمال کیا بھی جاسکتا ہے یا نہیں؟
عامیانہ سی مثال دوں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے مہران گاڑی کو ڈمپر کے ٹائر لگاکر کہا جائے کہ اس پر ڈمپر جتنا وزن لادکر اب چلادو۔

حضور! صرف بڑے ٹائر لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کی استعداد اور صلاحیت کو بھی دیکھنا ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ماہ پہلے جب اس الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا غلغلہ اُٹھا تھا تو الیکشن کمیشن نے 37اعتراضات اُٹھائے تھے۔ ان میں بہت سے اعتراضات دور ہوسکتے ہیں، لیکن چند ایک ایسے ہیں جنہیں حل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اور جن کے لیے ایک ڈیڑھ سال ہرگز کافی نہیں ہوگا۔
سو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گیم ابھی باقی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :