سچ کو کبھی موت نہیں آتی

بدھ 26 اگست 2020

Javed Ali

جاوید علی

دنیا میں دو چیزیں ایسی ہیں جو ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتی ہیں انہیں ایک نسل جانے یا دوسی نسل آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا- کتنے زمانے تبدیل ہوئی بڑے بڑے انسان گزر گۓ کیسے ظالم بادشاہ آۓ گئے کتنے نیک دل آدمی آۓ اور گئے لیکن وقت نے ثابت کیا سچ  طاقت ہے اور طاقت سچ نہیں- سچ اپنے آپ کو ظاہر کرتا دیر سے یا سویر سے لیکن اسے موت نہیں-
 آج سے تقریبا ساڑھے چودہ سو برس قبل کی بات ہے کہ موجودہ سعودی عرب کے اک شہر مکہ میں خانہ کعبہ کے پڑوس میں حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کے گھر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کی کوکھ سے اک بچہ پیدا ہوتا ہے جو اپنی زندگی کے چالیس سال اس انداز گزارتا ہے کہ عرب معاشرے میں مثل بن جاتا ہے لوگ اپنے اور غیر سب ہر وقت اس کی تعریف کرتے رہتے ہیں- چالیس سال زندگی گزارنے کے بعد اک دن وہ احد پہاڑ پر چڑھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑ کی اس جانب سے آپ لوگوں پر حملہ کرنے کے لئے اک لشکر آ رہا ہے تو مان جائیں گے تو یک زباں ہو کر کہا کیوں نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صادق اور امین ہیں- پھر فرمایا اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی معبود برحق ہے- وہ ہی قریشی جو اک لمحہ پہلے فدا ہو رہے تھے نہ صرف خلاف ہو گئے بلکہ جانی دشمن بن گئے- بچوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ , بڑوں میں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ اور عورتوں میں حضرت خدیقہ رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہا مشرفبا اسلام ہوئی- پھر چند خوش قشمت لوگوں کے دل اسلام کے نور سے منور ہوۓ- حالات سازگار نہ رہے تو آقا دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا پڑی اور ریاست مدینہ قائم کی گئی- وہ ہی شخص جو ہجرت کر کے گیا پھر فاتح بن کر اسی شیر میں اس طاقت سے داخل ہوا اور سبھی کو معاف فرما دیا- اس کے اسلام بعد دنیا کے ہر کونے میں جا گونجا-
آقا دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ نے مدینہ سے کربلا کی طرف ہجرت کی- وہ حسین رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ جو نبی کریم پر سواری کی وہ حسین جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو سجدے کی حالت میں کندھوں پر بیٹھ گئے تو سجدہ لمبا ہو گیا وہ حسین رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ جب اکسٹھ ہجری میں حق اور سچ کی فتح کے لئے کربلا پہنچتا ہے تو دین اسلام کے لئے اپنی اور خاندان کی قربانی دیتا ہے تو اک حیران کر دینے والی تحریک رقم کرتا ہے اور ہمیں یہ سبق سیکھاتا ہے کہ حق اور سچ کے لئے لڑ جائیں- وہ حسین رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ جس نے نماز کی حالت میں سر کٹوایا اور سچ کا دامن نہیں چھوڑا اور خود کو ہمیشہ کے لۓ زندہ کر گئے- آج ہم کس حالت ہیں کیا ہمیں خود کو مسلمان کہتے شرم نہیں آتی کہ ہم مسلمان ہیں کل کو محشر کے میدان میں حسین رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ کے نانا نے پوچھ لیا کہ میرے نواسہ نے تو سجدے میں سر کٹوایا اور تو نے کتنے رب تعالی کو کتنے سجدے کئے تو کیا جواب دو گے میرے بھائی- کیا ہم یہ جواب دیں گے کہ ہمارا نعرہ تھا کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں موت بھی قبول ہے اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے جان بھی قربان ہے- حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ‌ عنہ نے حق کا ساتھ اس وقت دیا جب تعداد میں چند لوگ تھے سچ کا ساتھ دیا تو ہزاروں کے لشکر سے لڑ گئے اور یزید کو ہمیشہ کے لئے نیست ونابود کر دیا- اسی حسین کے لۓ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کا قلم اٹھتا ہے تو کیا لکھتے ہیں-
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :