وقت بہت قیمتی ہے

پیر 23 مارچ 2020

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

وقت ایک قیمتی زیور ہے جو قسمت و مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے کیونکہ آج کل کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ جب تک آپ اپنا قیمتی وقت اپنوں کو نہیں دیں گے تو آپ کی اُس وقت تک کوئی قدر نہیں ہو گی۔ وقت اتنی تیزی سے گزرتا جا رہا ہے کہ کسی کو کوئی خبر ہی نہیں دوسروں کی۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔وہ کسی کیلئے رُکتا نہیں چاہے وہ عربی ہو یا عجمی، گورا ہو یا کالا،امیر ہو یا غریب، خواہ وہ جس مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو ۔

وقت آج تک کسی سلطان سکندر کیلئے بھی نہیں رُکا تھا نہ کسی پیغمبر کیلئے رُکا، نہ کسی ولی کیلئے رُکا اور نہ ہی کسی فقیرو درویش کیلئے رُکا۔ وقت اپنے دارومدار میں چلتا جا رہا ہے لیکن جنہوں نے وقت کی قدر کی ہے آج اُن کا نا م دُنیا میں روشن ہے ۔

(جاری ہے)

جنہوں نے اپنے آپ کو قیمتی بنایا اور خود کو وقت دیا ، آج وہ وقت کے شہنشاہ بنے۔ اور جنہوں نے وقت کو فضول ضائع و برباد کیا تو وقت نے ایک دن اُن کو بھی تباہ و بربارد کر دیا۔

گھڑی کی سوئی اپنے مدار میں گھوم رہی ہے اُسے کوئی چاہ کر بھی نہیں روک سکتا۔جس طرح غم دل کو کھتا ہے اور دل غم کو کھا تا ہے اسی طرح ہم وقت کو برباد کرتے رہتے ہیں اور وقت ہمیں برباد کر تا رہتا ہے ۔یہ کھیل کب سے شروع ہے، اس کا فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ آخر کار یہ وقت ہے کیا جس کی ہم قدر نہیں کرتے اور دُنیا و آخرت دونوں میں رُسو ا ہو جاتے ہیں ۔

وقت کیا ہے اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔ہم نے وقت کو شب و روز میں تقسیم کر رکھا ہے ۔موسموں میں بانٹ رکھا ہے ،لیکن یہ دن ، یہ رات، گرمی، یہ سردی، یہ بہار ، یہ برسات سب سورج کے دم سے ہی ہیں اور ماورائے شمس بھی کائنات ہے،بلکہ کائنات ہے ہی ماورائے شمس و قمر واور جہاں نہ دن ہے نہ رات، وہاں بھی وقت ہے۔ وقت کب شروع ہوا اور کب ختم ہو گا۔ اس کا فیصلہ تو مشکل ہے ۔

وقت قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ قدیم وہ جو ہر آغاز سے پہلے اور ہر انجام کے بعد قائم رہے۔ جس کا نہ یوم پیدائش ہو نہ یوم وصال۔۔۔۔ہم خالق کو ، اللہ کو قدیم مانتے ہیں اور وہ ہے بھی بہت قدیم۔ کسی اور ذات یا کسی اور شے کا قدیم ہونا، خالق کی احادیث کے باب میں شرک ہے۔ حادث وہ جو پیدا اور ایک خاص محدود عرصہ کے بعد مر جائے۔ جو لوگ وقت کو قدیم مانتے ہیں،وہ وقت کا خالق ہی مانتے ہیں۔

جو لوگ وقت کو قدیم نہیں مانتے ،و ہ اس مخلوق سمجھ کر حادث اور فانی کہتے ہیں۔وقت کو فانی ثابت کرنا مشکل ہے۔ وقت کے لامحدود خزانوں سے ہمیں چند محدود ایام ملتے ہیں۔ ہم اس کو زندگی کہتے ہیں،اسے گزارتے ہیں ، خوشیوں کے ساتھ، غم کے ساتھ، محفلوں میں، تنہائی میں، محنت کے ساتھ، آرام کے ساتھ۔ ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ایام کو ہم کیا کریں۔

مجبوری دیمک کی طرح ہماری زندگی کو چاٹ لیتی ہے، گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔ ہم کچھ نہ کچھ بننا چاہتے ہیں،بلکہ سب کچھ بننا چاہتے ہیں اور سب کچھ بنتے بنتے ہم انجام کارمیں اکثر بے و وقوف ہی بن کے رہ جاتے ہیں۔ ہم وقت کو بچاتے ہیں۔ اسے بچاتے بچاتے ایک دن ایسا آتا ہے کہ فرشتہ ہمارے کان میں کہتا ہے کہ ختم ہو گیا، وقت ختم ہو گیا۔۔۔کیسے ختم ہو گیا۔

۔۔میں نے خرچ نہیں کیا۔۔۔۔ختم کیسے ہوا۔۔۔یہ ظلم کی جمع کیا ہو، خرچ سے پہلے ختم ہو گیا۔۔۔؟ انسان کو جب یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے ، اس پر جب یہ راز منکشف ہوتا ہے تو وہ ہنستا ہے اور اس کی آنکھ میں آنسو ہوتے ہیں۔مسافر کا سفر طے نہیں ہوتا اور ختم ہو جاتا ہے۔ انسان وقت کے تیز ترین گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ منزلیں طے ہو رہی ہیں، فتوحات ہو رہی ہیں،لیکن آخر کار یہ گھوڑا، اپنے سوار، بلکہ شہسوار کر گرا کر بے یارومدد گار چھوڑ تا ہو اغائب ہو جاتا ہے، اپنے نے سوار کی تلاش میں۔

۔۔وقت ختم ہو جاتا ہے،لیکن وقت کا قافلہ چلتا رہتا ہے۔ہماری زندگی بھی ایک وقت ہی ہے۔ہمارے پاس بڑا وقت ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔۔۔ہماری ساٹھ سال کی اوسط زندگی میں بیس سال تو نیند کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ہم اپنا وقت گزارنے کیلئے کچھ وقت بیچ دیتے ہیں،نوکری کرتے ہیں،مزدوری کرتے ہیں،آزادیوں میں غلامی کرتے ہیں،اور اس کے عوض جو معاوضہ ملتا ہے ،اس سے زندگی کو با شعور اور با سلیقہ بناتے ہیں۔

جب شعور اور سلیقہ حاصل ہوتے ہیں،تو ہم خود ہی لا حاصل ہو چکے ہوتے ہیں۔ہم نے جو خرچ کیا، وہ خرچ ہو گیا۔۔۔۔جو بچاپا، وہ بھی خرچ ہو گیا۔۔۔ہمارا قوی وجود آخر کار ریت کی دیوار کی طرح اندر ہی گرتا ہے اور یہ موجود نامود ہو جاتا ہے۔ جب لوگوں نے اپنے وقت کو خوشگوار مستقبل کیلئے گزارا، وہ نہ سمجھے کہ وہ خوش گوار مستقبل کب آئے گا۔۔زندگی ایک خوفناک اور حسرت ناک ماضی بنتی جا رہی ہے اور نگاہیں خوشگوار مستقبل پر لگی ہیں۔

جو لوگ اپنے وقت کا معاوضہ اپنے وت میں وصول کرنا چاہتے ہیں ،وہ اکثر برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی، یہ عمر،یہ زمانہ یہ وقت کسی اور وقت کیلئے محنت کا زمانہ ہے۔یہ زندگی کسی اور زندگی کی طرف ایک قدم ہے۔ یہ وقت کسی اور وقت کی رجوع کا وقت ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جتنے بھی قابل ذکر اور قابل قدر نفوس آئے،وہ ہمیشہ وسیع، کائناتی، عظیم تخیل کے مطابق کام کرتے رہے۔

۔انہوں نے اپنے زمانے سے اپنے وقت کی قیمت نہیں حاصل کی اور آج ہر زمانہ ان کا اپنا زمانہ ہے۔ کوئی زمانہ ان کے ذکر سے خالی نہیں ۔کوئی دور ان کے دور کو نظر نہیں کرسکتا۔ کوئی بقاء ان کی فنا سمجھ کر ترک نہیں کر سکتی ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کووقت نے اپنے ساتھ ملا لیا۔۔۔سلام ہو ان فانی انسانوں پر، جن کا ذکر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ بات کہنے میں بڑی آسان ہے ۔

اگر انسان وقت ہو جائے تو ہمیشہ رہے گا۔ اگر وقت انسان ہو جائے تو باقی نہ رہے گا۔ انسان نے خود کو تقسیم وقت میں کر کے بہت بڑا نقصان کیا۔ ہمارا وقت گھڑیال کھا گئی ہیں۔۔۔گھڑیاں بڑھ گئی ہیں اور عمر گھٹ گئی ہے۔۔۔ جب پیمائش نہیں تھی، وقت وسیع تھا۔جب پیمائش ہو گئی ،،پروگرام بن گئے ،پابندی شروع ہوئی۔۔۔باقاعدگی کی وبا پھیل گئی۔۔۔وقت بیمار ہو گیا۔ کیونکہ وقت نہ دن ہے،نہ رات، نہ موسم نہ تاریخ۔۔۔۔وقت بس وقت ہے ۔ ہر آغاز سے آزاد، ہر انجام سے بے نیاز۔۔اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ ہمیں سب کو اپنی قدر کرنے، اپنے آپ کو وقت دینے اور قیمتی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :