شفقت انکل ہمیں پڑھنے دو

پیر 29 مارچ 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

 یہ وہ آواز ہے جو پچھلے دنوں پاکستان کا ٹاپ ٹرینڈ بنی، اور جو ہماری تعلیمی صورتحال کی عکاسی اور ہمارے طلباء کے اندر پائ جانے والی تشویش کا اظہار ہے- یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شفقت انکل سے طلباء کی مراد پاکستان کے وزیر تعلیم شفقت محمود ہیں ۔ طلباء سراپا احتجاج ہیں کہ اگر تمام سیاسی سرگرمیاں زور وشور سے جاری رہ سکتی ہیں، یوم پاکستان پر پریڈ جیسے قومی سطح کے پروگرام ہو سکتے ہیں تو تعلیمی سرگرمیوں پر اس قدر پابندیاں کیوں ہیں؟ پاکستان کے طلباء اپنی تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے ذہنی ہیجان کا شکار نظر آ رہے ہیں جو کہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جس کا تدارک فوری طور پر ہونا چاہیے- میں نے جب یہ ٹاپ ٹرینڈ دیکھا تو اس پر لکھنے پر مجبور ہوگئ کہ کیوں ہمارے ہاں عجیب و غریب قسم کے ٹرینڈز کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے اور کیوں اربابِ اختیار کو اس پر تشویش نہیں ہوتی-
بی بی سی کی تازہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال معاشی اور سماجی خطرہ بن کر پوری دنیا کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے چکی ہے۔

(جاری ہے)

سماجی رابطوں میں کمی کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات لوگوں کے تحفظ کے لیے تو ضروری ہیں مگر اس سے معیشت، معمولات زندگی کے بعد سب سے زیادہ طلباء کا تعلیمی سال متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں تو وسائل کی کمی کے باعث صورتحال اور بھی زیادہ بھیانک ہے، حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ابتدائی طور پر کیے جانے والے اقدامات میں تعلیمی اداروں کو پانچ اپریل تک بند رکھنا بھی شامل تھا۔

  وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعلان کیا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی آن لائن کلاسز شروع کرائی جائیں گی تاکہ طالب علموں کی تعلیم کا حرج ہونے سے بچایا جا سکے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن کلاسز کا مربوط نظام نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا-
بورڈ کے طلباء کو تو اس سے بھی زیادہ تشویش کا سامنا ہے-  2020 سال کے طلباء بغیر امتحانات کے اگلی جماعتوں میں پروموٹ کر دئیے گئے جن میں دسویں جماعت والوں کو نویں اور بارہویں والوں کو گیارہویں جماعت کی کارکردگی پر پروموٹ کیا گیا، مگر گزشتہ نویں اور گیارہویں جماعت والے طلباء جو اس سال دسویں اور بارہویں میں ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی ماڈل پیپرز ہیں اور نہ ہی کوئی جامع ہدایات جس کے تحت امتحان لیا جائے گا- سلیبس میں کمی طلباء کے مسائل میں کمی نہ کر سکی اور ملک سے باہر مقیم وہ طلباء جو اپنے والدین کے ساتھ مختلف ممالک میں مقیم مگر پاکستانی بورڈز کے تحت ہیں، ان کے مسائل ملک سے دوری کے باعث مزید پیچیدہ ہیں-
خلیجی ممالک میں جہاں پاکستانی طلباء کی تعداد بہت زیادہ ہے، طلباء کبھی آن لائن اور کبھی آن کیمپس سکول کے امتحانات تو دے رہے ہیں مگر وہ سکول چیکنگ سے ہرگز مطمئین نہیں کیونکہ سکول کی استانیوں نے اپنے تئیں عجیب و غریب معیار بنا رکھے ہیں کہ اگر پرچے میں بچے کو پورے نمبر سکول کے امتحانات میں دے دئیے تو وہ بورڈ کے امتحان کیلئے ڈھیلا پڑ سکتا ہے جو کہ طلباء اور والدین کیلئے انتہائی بوگس دلیل ہے- والدین کے شکایت کے باوجود ہماری سکول انتظامیہ نے اس مسئلے پر کوئی کان نہیں دھرا لہٰذا پاکستانی بچوں کے ساتھ ساتھ  سمندر پار پاکستانی بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ شفقت انکل ہمارے مسائل کا نوٹس لیا جائے اور ہمیں پڑھنے دیا جائے -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :