نظریہ اور اس کے عملی مقاصد!

منگل 13 اکتوبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

ہمارے ملک میں اس وقت جو احتجاج کی فضا چل رہی ہے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے اس لڑائی کا مقصد کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے یہ بات ہمیں تب تک سمجھ نہیں آئے گی جب تک ہم اس لڑائی کے مقصد کو نہیں سمجھ پائیں گے جو کہ بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک لڑائی کے مقصد کو نہیں سمجھا جائے گا تب تک لڑائی کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا یہ لڑائی ہے کیا ہے آئیے جانتے ہیں۔

یہ لڑائی ایک نظریہ کی لڑائی ہے، نظریہ سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی بھی درپیش معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں یا آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کا کوئی نام نہ ہو اور جو معمولی ساکھ بھی نہ رکھتا ہو۔ معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے آدمی کو شناخت اور کام دونوں کی ضرورت ہوتی ہے نام شناخت کا ذریعہ ہے، اور کام سے ساکھ بنتی ہے اسی طرح دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کی شناخت نہ ہو اور وہ ساکھ سے بھی خالی ہو، کیونکہ نام اور ساکھ کے بغیر قوم بنتی ہے اور نہ باقی رہ سکتی ہے۔

(جاری ہے)

نظریہ معاشرے کو شناخت دے کر قوم بناتا ہے لیکن نظریہ کچھ عملی مقاصد بھی رکھتا ہے، جن کا حصول قوم کی ساکھ بناتا ہے جدید دنیا میں قوم ہونے کا مطلب ہی سیاسی شناخت ہے جو کسی نہ کسی نظریے سے حاصل ہوتی ہے اس لیے نظریہ سیاسی ہوتا ہے اور قوم کے سیاسی عمل کے مقاصد بھی متعین کرتا ہے۔ ماضی کے تجربات اور کو تاہیوں کے بعد قائم ہونے والا سیاسی نظریہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ایک مظبوط سیاسی نظریہ ہمارے مستقبل کی تعمیر کے لئے مضبوط بنیاد ثابت ہو سکتا ہے مختلف سیاسی نظر یات اور فلسفوں کی امداد ہم صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے آنے والے کل کی فکر ہو اور حال کی صورت حال سے ہم بخوبی آگاہ ہوں۔

ریاست کو دور حاضر میں منصوبہ بندی کی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے یہ منصوبہ بندی مستقبل کے بارے میں ہی ہے جدید نقطہ نظر، یہ ہے کہ کسی ریاست اور حکومت کی کار کردگی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان سیاسی راہنماؤں کی سوچ کوبھی پڑھا جائے جو کسی معاشرہ میں برسر اقتدار ہیں۔ سیاسی قوت کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا قیام اگرچہ ایک نظریہ کی بدولت ہوالیکن قیام پاکستان کے بعد مغربی سیاسی نظریات کو اس لئے فروغ حاصل ہوا کہ بر سر اقتدار طبقہ مغربی نظریات سے متاثر تھا لہٰذ ا سیاسی اور اندازِ فکر اسلامی اداروں کی بجائے مروجہ مغربی اداروں کی طرف رہاجدید حکومت کی تنظیم اس طرح ہے کہ یہ تین شعبوں پر مشتمل ہے جو مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔

انتظامیہ کو دور حاضر میں زبردست اہمیت حاصل ہو چکی ہے اس شعبہ کا کام ریاست کا نظم و نسق چلانا پالیسی کے اصول تیار کرنا اور ان کا نفاذ ہے انتظامیہ دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ایک حصہ میں صدر وزیر اعظم وزرا ء اور مشیر شامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سیاست دان کہلاتے ہیں ان کا رابطہ عوام اور مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں سے ہوتا ہے وہ ملک اور لوگوں کی ضروریات اور تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں لیکن ان کو قومی امور کو سرانجام دینے کا عملی تجربہ نہیں ہوتا۔

انتظامیہ کا دوسرا حصہ ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلاً ایڈ منسٹریشن سول سروس اور بیورو کر یسی وغیرہ ان لوگوں کی تقرری کا معیار ، علمیت ، اہلیت اور ذہانت کی بنا پر ہوتا ہے ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان لوگوں کو مختلف قومی امور سرانجام دینے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے ان کے پاس سالہا سال کا عملی تجربہ ہوتا ہے لہٰذا انتظامیہ کے اندر سب سے فعال اور متحرک گروپ ان ہی افسران پر مشتمل ہوتا ہے سیاسی حکمران حکومت کی پالیسی وضع کر تے وقت ان کے مشورے اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں سیاست دانوں کا کام یہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل کی نشان دہی کر یں اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے ذریعے ان کو حل کر وائیں۔

جدید ریاست کو نظم و نسق کے علاوہ بے شمار فلاحی امور بھی انجام دیتے ہیں لہٰذا ہر حکومت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ حکومت پبلک ایڈمنسٹریشن سے قومی تعمیر و ترقی کے لئے کتنا کام لے سکتی ہے ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ایڈمنسٹریشن غیر جانبداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر مالک میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے بیرونی قوتیں اداروں کو سیاست میں ملوث کر دیتی ہے جس سے منتخب حکومتوں کی استعداد کار متاثر ہوتی ہے۔

سیاسی انتظامیہ کو اور پبلک ایڈ منسٹر یشن کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے پچھلے 73 سالوں سے سیاست دان مسلسل کوشش کے باوجود عوامی تقاضوں کی نشان دہی کرنے کی کوشش میں ہیں مگر شاید کوئی بھی سیاست دان اداروں کو نہیں بھا پایا ہے اور مْلک میں بد قسمتی سے مخصوص ادارے پالیسی ساز بن گئے ہیں اور اقتدار کی ہوس کے باعث اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کے مرتکب ہورہے ہیں کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی کا انحصار منتخب حکومتوں کی بنائی ہوئی پالیسیز پر اداروں کا غیر جانبدار رہتے ہوئے عمل کروانا ہے، تب ہی عوام کے مسائل کا حل ممکن ہے وگرنہ ہم اگلے سو سال تک بھی اِن مسائل کا حل نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔

اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم اِس سیاسی نظریہ کو سمجھنا پڑے گا اور یک جا ہو کر پوری دْنیا کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے اور یہ کام ہم عوام اپنے منتخب کئیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے ہی کروائیں گے نا کہ اداروں کو اپنی من مانی کی کھلی چھوٹ دے کر فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے کہ یہ لڑائی اصل میں ہے کیااور کس کی لڑائی ہے اور عوام یہ لڑائی لڑنے کے لئے تیار ہے کہ نہیں؟ ۔ اس نظریہ کے کچھ عملی مقاصد ہیں جن کا حصول قوم کی ساکھ پوری دْنیا میں بنانا ہے اور اس کے لئیے ضروری ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم اس نقطہ پر یکجا ہو کر پوری دْنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہم اپنے جمہوری حق رائے دہی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :