بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے؟

منگل 13 اپریل 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ یہ محاورہ پاکستان کی سیاست پر بالکل پورا اترتا ہے۔ اب دیکھیے پچھلے کچھ دنوں سے کیا صورت حال بنی ہوئی ہے۔ کچھ دن پہلے تحریک انصاف کے رہنما اور چینی اسکینڈل میں نامزد ملزم جہانگیرترین جو کہ 6 شوگر ملز کے مالک ہیں اور پاکستان کی مارکیٹ میں انکی شوگر ملز کی پیداوار کا قریباً 20 فیصد مارکیٹ شئیر ہے نے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو عشایئے کی دعوت دی اور کم وقت کے نوٹس کے باوجود 3 قومی اور 15 صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اس سیاسی ناشتے میں شرکت کی جس سے جہانگیر ترین نے عمران خان اور ُان کے قریبی حواریوں کو کچھ پیغام بھی دینے کی کوشش کی اصل “کنگ میکر” کون ہے۔

وہ اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئے یا ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اپنی ہی حکومت میں خود پر لگے چینی کے حوالے سے الزامات پر نالاں ہیں، اور اپنے بیانات میں کہتے آرہے ہیں کہ میں تحریک انصاف سے انصاف مانگ رہا ہوں۔ میں تو دوست تھا۔ مجھے دشمنی کی طرف کیوں دھکیل رہے ہو؟ میں تو دوست تھا، دوست ہی رکھو۔

ان بیانات میں چھپی ہوئی وارننگ صاف سنی جاسکتی ہے۔
 
اب جہانگیر ترین کے سیاسی ناشتے کی جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین نے ناشتے میں خوب دل کی بھڑاس نکالی اور اپنے خلاف ہونے والی انتقامی کاروائی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت میرے خلاف سازش میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، شہزاد اکبر اور تین مزید افراد شامل ہیں۔


جہانگیر ترین کے مطابق اعظم خان اور شہزاد اکبرنے اُنھیں گرفتار کروانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔جہانگیر ترین کے مطابق اُنہوں نے بیوروکریسی کو فعال بنانے کے لئے سٹریٹجک ریسورس یونٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔جسے اعظم خان نے اپنے خلاف سازش سمجھ لیا ۔کیونکہ اعظم خان بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کا متبادل نظام نہیں بننے دینا چاہتے اس لئیے اعظم خان سمجھتے ہیں کہ اصلاحاتی نظام آ گیا تو ان کے اختیارات کم ہو جائیں گے۔


یہاں قائرین کی اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اعظم خان اور جہانگیر ترین کے درمیاں کئی بار پرائم منسٹر ہاؤس میں معاملات تلخ کلامی تک جا پہنچے تھے، ایک بار تو اعظم خان نے یہاں تک کہہ دیا تھا “ آپ وزیرِاعظم نہیں ہیں” ۔
جہانگیر ترین کے مطابق پی ٹی آئی میں پانچ رکنی ٹولے نے عمران خان کو اُن سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ مسلسل واٹس ایپ پر وزیراعظم کو مثبت تجاویز بھجواتے رہے جسے سازشی ٹولہ مسترد کرواتا رہا اور اُن کے خلاف عمران خان کو بھڑکاتے رہے کہ وہ عمران خان پر اپنے احسانوں کے بدلے میں گرفت رکھ کر اپنی مرضی سے حکومت کے معاملات کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

اُنھوں نے عمران خان کے ساتھ وفاداری کی لیکن اُن سےمتعلق عمران خان کو گمراہ کیا گیا۔جہانگیر ترین نے انتقامی کاروائی بند نہ ہونے کی صورت میں فارورڈ بلاک بنانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔خیال رہے کہ کچھ دن پہلے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین لاہور کی ایف آئی اے بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے ، اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء غلام بی بی بھروانہ ،راجہ ریاض، نعمان لنگڑیال،نذیر بلوچ ، سلیمان نعیم اور خرم لغاری جہانگیر ترین کے ہمراہ تھے ، جب کہ چودھری افتخار گوندل ،اسلم بھروانہ،طاہر راندوا اور امیر محمد خان بھی جہانگیر ترین کے ساتھ موجود تھے۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی راجہ ریاض نے کہا کہ کچھ لوگ جہانگیر ترین کے خلاف سازش کررہے ہیں ، اس پر وزیراعظم عمران خان کو ایکشن لینا چاہیے ، وزیر اعظم عمران خان کے اعتماد کا ووٹ لینے میں اہم کردار جہانگیر ترین کا ہے ، وزیراعظم اپنے بہترین اور جان نثار دوست کے خلاف زیادتی بند کرائیں۔
یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے جب معاملات سیٹ کیے جارہے تھے تو تخت پنجاب کی ایک جنگ تھی۔

یہ جنگ تین افراد میں تھی، جس میں سے ایک جہانگیر ترین جو نااہلی کے بعد اس دوڑ سے باہر ہو گئے تھے، دوسرے اس وقت وفاقی وزیر ہیں اور تیسرے فریق کے سر پر بھی نااہلی اور گرفتاری کی تلوار ہے۔ جبکہ پنجاب کا تاج اس وقت عثمان بزدار کے سر پر ہے، جن کے نام سے واقفیت اُن کے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھانے کے بعد ہوئی تھی۔
جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کو مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا کردار ادا کیا تھا۔

انتخابات میں جب نتائج آئے تو نمبر گیم میں تحریک انصاف کمزور تھی۔ اس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی بلکہ اگر جوڑ توڑ سے حکومت بنتی بھی تھی، تب بھی پی ٹی آئی کو ڈرائیونگ سیٹ ملتی نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جہانگیر ترین نے تسلیم بھی کیا تھا کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ کامیاب آزاد امیدواران کو پی ٹی آئی میں شامل کیا جائے۔

اس موقع پر انہوں نے اپنے جہاز کو کپڑا مارا اور پنجاب بھر کا سفر کیا۔ انہوں نے ہی آزاد امیدواروں سے معاملات طے کیے اور ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کروا کر پنجاب اور مرکز میں حکومت بنوائی۔ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں کو توڑ کر اپنی پارٹی میں لانے کا سہرا بھی جہانگیر ترین کے سر جاتا ہے۔ انھی کی کوششوں سے تین درجن سے زائد مسلم لیگی امیدواران نے پہلے “جنوبی پنجاب” صوبہ محاذ بنایا اور پھر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔


آج وہی جہانگیر ترین اپنی ہی تحریک انصاف سے ’’انصاف‘‘ مانگتے پھر رہے ہیں۔ یہ مکافاتِ عمل نہیں تو اور کیا ہے؟
دوسری طرف “احتساب“کے مشیر شہزاد اکبر نے جہانگیر ترین کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ میرٹ پر تفتیش ہوئی ہے اور چینی سکینڈل میں ان کا نام آنے پر کیس ایف آئی اے کو دیا گیا۔

انہوں نے یہ دلچسپ بات بھی کی کہ احتساب میں دوستی نہیں ہو سکتی کیونکہ میرٹ پر فیصلے کرنے ہوں تو دوست نہیں دیکھتے جاتے۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے دوستی شہزاد اکبر کی جہانگیر ترین سے نہیں، دوستی تو عمران خان اور جہانگیر ترین کی تھی، تو کیا واقعی عمران خان نے احتساب کے لئے دوستی کو قربان کر دیا ہے؟ چلئے مان لیتے ہیں کہ احتساب کے لئے عمران خان کا فارمولا یہی ہے تو پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی کابینہ میں خسرو بختیار، پرویز خٹک، غلام سرور خان، عبدالرزاق داؤد اور دیگر قریبی شخصیات ایسی موجود ہیں، جن کے خلاف نیب تحقیقات کر رہا ہے۔

شفاف احتساب کا تقاضا تو یہی ہے کہ انہیں بھی عہدوں سے ہٹا کر احتساب بیورو سے کلین چٹ لینے کو کہا جائے مگر ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ ان کی عمران خان کو حکومت برقرار رکھنے کے لئے ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جہانگیر ترین چونکہ نا اہل ہو گئے تھے، تین میں رہے نہ تیرہ میں رہے اس لئے ان کے خلاف کارروائی کی منظوری دے کر ایک تیر سے دو شکار کئے جا سکتے تھے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :