فسطین اور افغانستان اقبالی اور فاروقی فارمولے کے تناظر میں

جمعرات 10 جون 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

افغانستان اور فلسطین کا مسئلہ ایک سا ہے اور ان دونوں مسائل کا حل بھی وہی جو علامہ اقبال اور فاروق اعظم نے تجویز کیا تھا اور تاریخ بھی ان دونوں شخصیات کی دوراندیشی کی داد دیتی ہے ۔پہلے افغانستان کا مسئلہ دیکھ لیتے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا :
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملت افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
از کشادِ او کشادِ آسیا
تا دل آزاد است آزاد است تن
ورنہ کاہی در رہِ باد است
یعنی ایشیا ایک جسم کا نام ہے جس میں دل کا نام افغانستان ہے۔

اگر دل (افغانستان) ٹھیک ہو گا تو جسم (ایشیا) بھی ٹھیک رہے گا اور دل میں فساد برپا ہوا تو پورے جسم میں فساد بپا ہو گا ۔جب تک دل آزاد ہو جسم آزاد رہتا ہے ورنہ جسم کی مثال ایک تنکے کی مانند ہے جسے ہوا یہاں وہاں اڑائے پھرتی ہے۔

(جاری ہے)


عقل حیران ہوتی ہے کہ کئی سال پہلے علامہ اقبال کا لگایا ہوا یہ اندازہ کتنا درست تھا ۔علامہ اقبال نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب یہاں روس ، گلبدین حکمت یار ، رشید دوستم ، ظاہر شاہ ، طالبان اور امریکا نام تک نہ تھا ۔

یہ علامہ اقبال کی دوراندیشی نہیں تو اور کیا ہے؟آپ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،جب بھی افغانستان میں امن قائم ہوا ، پورا ایشیا امن کا گہوارہ بنا اور اگر افغانستان کے حالات خراب ہوئے تو ایشیا میں بھی حالات خراب ہوئے ۔یعنی ایشیا کا امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے۔ لہذا بالخصوص پاکستان ، ایران،چین اور انڈیا کو اپنے مفادات کی بجائے ایک ایسا جامع منصوبہ بنانا چاہیے جس سے افغانستان میں امن ہو کیونکہ ان تمام ممالک کا امن اسی کے امن میں مضمر میں ہے۔

علامہ اقبال نے یہ پائیدار تجزیہ یا پیش گوئی کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی اس مشہور زمانہ حدیث کا سہارا لیا ہے کہ”آگاہ رہنا کہ جسم میں ایک ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہوتو پورا جسم صحیح اور اگر وہ لوتھڑا خراب ہو تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے اور وہ لوتھڑا دل ہی ہے“۔(بخاری شریف ، کتاب الایمان ، حدیث:55 )۔ یعنی انسان صاحب بصیرت ہو تو کس چیز کا حل قرآن و حدیث میں نہیں ہے؟بیرونی مداخلت ختم کر کے افغانستان کو خودمختاری دے دی جائے تو اس سے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

یہی وہ سبق تھا جو انگلینڈ نے سیکھا ، بعد ازاں روس نے اور اب امریکا بھی سیکھ چکا ہے اور واپسی کے لیے پر بھی تول رہا ہے لیکن جانے سے پہلے وہاں انڈیا جیسی پراکیسیز کا کردار فعال کرنا چاہتا ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ایران ، چین اور پاکستان بھی میدان میں کود پڑے لیکن علامہ اقبال کی اس پیش گوئی اور افغانستان کی تاریخ سے منہ موڑ رہے ہیں۔اسی لیے افغانستان میں امریکا کی شکست کو اپنی حکمت عملی کا نتیجہ کہتے ہوئے بھی پاکستان خوش ہونے کی بجائے الٹا پریشان ہے ۔

پریشانی کی وجہ وہی حالات ہیں جو مستقبل میں پیش آنے والے ہیں اور اسی پر پاکستان میں ایک ہائی کمان سیکیورٹی میٹنگ بھی ہوئی ہے۔
جس طرح افغانستان کے حالات ایشیا پر اثرانداز ہوتے ہیں بالکل اسی طرح فلسطین کے حالات سے پورا عرب متاثر ہوتا ہے۔خطہ عرب کا امن فلسطین کے امن سے وابستہ ہے اورفلسطین کا امن یہود کی بے دخلی سے وابستہ ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک یہود اس خطے میںآ باد رہے وہاں امن قائم نہیں ہوا۔

امن صرف اسی عرصے میں قائم ہوا جس عرصے میں یہود خطے سے باہر رہے ۔ یہ وہی حقیقت ہے جس کا ادراک ان عیسائیوں کو بھی تھا جنہوں نے مسجد اقصیٰ کی تولیت سنبھال رکھی تھی اور اسی حقیقت کو فاروق اعظم کی بصیرت نے بھی تسلیم کیا۔جب آپ نے بیت المقدس کو فتح کیا تو عیسائیوں نے کنجیاں آپ کے حوالے کرتے ہوئے معاہدے کی من جملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی رکھی کہ یہاں یہود کو آباد نہ ہونے دیا جائے گا ۔

یعنی مذہبی عبادات کے لیے اگر وہ آنا چاہیں تو بسم اللہ لیکن آباد کاری کی انہیں ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ یہود کی وہاں آباد کاری میں کیا امر مانع تھا؟اس کا سبب یہوداور اس خطے کی تاریخ اور مختلف اقوام کے تجربات تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اس قوم کو مختلف اوقات میں مختلف علاقوں سے صرف امن کی خاطر بیدخل کیا جاتا رہا۔بلکہ یہودیوں کے آج کے سرپرست اعلیٰ بھی انہیں بیدخل کرتے رہے ہیں۔

شاہ تلگلت پلاسرسوم، شاہ سارگون دوم ، شالمانسر ، شاہ روم ، شاہ فارس ہامان ، شہنشاہ تیبریس ، شہنشاہ کلاڈیس ، سکندریہ کے سینٹ سرامکی ، مختلف بازنطینی بادشاہ اور خود نبی کریم ﷺ نے انہیں مدینہ منورہ سے بیدخل کر دیا ۔ایسا کیوں ؟کیونکہ ان کی تاریخ ہے کہ یہ جہاں بھی رہے لوگوں کو اوس اور خزرج کی طرح لڑا کر اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے فساد برپا کرتے رہے۔

اسی لیے انہیں قدیم دور کے اوپر مذکور بادشاہوں کی طرح انہیں انگلینڈ ، جرمنی اور فرانس سمیت تمام یورپی ممالک نہ صرف بیدخل کرتے رہے ہیں بلکہ قتل بھی کرتے رہے ہیں۔اسی بات کے پیش نظر عیسائیوں نے انہیں بیت المقدس میں داخلے کی اجازت نہ دی اور فاروق اعظم سے بھی اس بات کا عہد لے لیا۔یوں اس قوم نے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل کر فسادی کارروائیاں کیں ۔

جرمنی میں ان کے قتل عام کے بعد ”ٹھیکدار“ ممالک سے اس وبا سے جان چھڑانے کا منصوبہ بنایا جس میں بڑی حد تک ان کی اپنی جدوجہد بھی شامل تھی اور انہیں ایک خطے تک محدود کرنے کے لیے اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔تاریخ گواہ ہے کہ اس بعد عرب میں امن قائم نہیں ہوا بلکہ احادیث رسول کے مطابق عالمی جنگ (الملحمة الکبریٰ) کا سبب بھی یہی سرکش قوم بنے گی ۔
لہذا امن کے ٹھیکداروں کو اگر امن چاہیے تو افغانستان میں اقبالی اور فلسطین میں فاروقی فارمولا اپنانا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :