
فسطین اور افغانستان اقبالی اور فاروقی فارمولے کے تناظر میں
جمعرات 10 جون 2021

کوثر عباس
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا :
ملت افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
از کشادِ او کشادِ آسیا
تا دل آزاد است آزاد است تن
ورنہ کاہی در رہِ باد است
(جاری ہے)
عقل حیران ہوتی ہے کہ کئی سال پہلے علامہ اقبال کا لگایا ہوا یہ اندازہ کتنا درست تھا ۔علامہ اقبال نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب یہاں روس ، گلبدین حکمت یار ، رشید دوستم ، ظاہر شاہ ، طالبان اور امریکا نام تک نہ تھا ۔
جس طرح افغانستان کے حالات ایشیا پر اثرانداز ہوتے ہیں بالکل اسی طرح فلسطین کے حالات سے پورا عرب متاثر ہوتا ہے۔خطہ عرب کا امن فلسطین کے امن سے وابستہ ہے اورفلسطین کا امن یہود کی بے دخلی سے وابستہ ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک یہود اس خطے میںآ باد رہے وہاں امن قائم نہیں ہوا۔امن صرف اسی عرصے میں قائم ہوا جس عرصے میں یہود خطے سے باہر رہے ۔ یہ وہی حقیقت ہے جس کا ادراک ان عیسائیوں کو بھی تھا جنہوں نے مسجد اقصیٰ کی تولیت سنبھال رکھی تھی اور اسی حقیقت کو فاروق اعظم کی بصیرت نے بھی تسلیم کیا۔جب آپ نے بیت المقدس کو فتح کیا تو عیسائیوں نے کنجیاں آپ کے حوالے کرتے ہوئے معاہدے کی من جملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی رکھی کہ یہاں یہود کو آباد نہ ہونے دیا جائے گا ۔یعنی مذہبی عبادات کے لیے اگر وہ آنا چاہیں تو بسم اللہ لیکن آباد کاری کی انہیں ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ یہود کی وہاں آباد کاری میں کیا امر مانع تھا؟اس کا سبب یہوداور اس خطے کی تاریخ اور مختلف اقوام کے تجربات تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اس قوم کو مختلف اوقات میں مختلف علاقوں سے صرف امن کی خاطر بیدخل کیا جاتا رہا۔بلکہ یہودیوں کے آج کے سرپرست اعلیٰ بھی انہیں بیدخل کرتے رہے ہیں۔شاہ تلگلت پلاسرسوم، شاہ سارگون دوم ، شالمانسر ، شاہ روم ، شاہ فارس ہامان ، شہنشاہ تیبریس ، شہنشاہ کلاڈیس ، سکندریہ کے سینٹ سرامکی ، مختلف بازنطینی بادشاہ اور خود نبی کریم ﷺ نے انہیں مدینہ منورہ سے بیدخل کر دیا ۔ایسا کیوں ؟کیونکہ ان کی تاریخ ہے کہ یہ جہاں بھی رہے لوگوں کو اوس اور خزرج کی طرح لڑا کر اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے فساد برپا کرتے رہے۔اسی لیے انہیں قدیم دور کے اوپر مذکور بادشاہوں کی طرح انہیں انگلینڈ ، جرمنی اور فرانس سمیت تمام یورپی ممالک نہ صرف بیدخل کرتے رہے ہیں بلکہ قتل بھی کرتے رہے ہیں۔اسی بات کے پیش نظر عیسائیوں نے انہیں بیت المقدس میں داخلے کی اجازت نہ دی اور فاروق اعظم سے بھی اس بات کا عہد لے لیا۔یوں اس قوم نے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل کر فسادی کارروائیاں کیں ۔جرمنی میں ان کے قتل عام کے بعد ”ٹھیکدار“ ممالک سے اس وبا سے جان چھڑانے کا منصوبہ بنایا جس میں بڑی حد تک ان کی اپنی جدوجہد بھی شامل تھی اور انہیں ایک خطے تک محدود کرنے کے لیے اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔تاریخ گواہ ہے کہ اس بعد عرب میں امن قائم نہیں ہوا بلکہ احادیث رسول کے مطابق عالمی جنگ (الملحمة الکبریٰ) کا سبب بھی یہی سرکش قوم بنے گی ۔
لہذا امن کے ٹھیکداروں کو اگر امن چاہیے تو افغانستان میں اقبالی اور فلسطین میں فاروقی فارمولا اپنانا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.