کہ اب گیس ساشوں میں ملنے لگی ہے

جمعہ 26 نومبر 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

عین اور غین بازار سے گزر رہے تھے۔ پتا نہیں کتنے ہفتے ہو چلے تھے کپڑے پہنے ہوئے۔ بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔ ماچس خریدنے رکے تو دکاندار نے ناک بھوں چڑاتے ہوئے کہا: خدا کے بندو! کم از کم کپڑے ہی تبدیل کر لو۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا، دکان کے پیچھے گئے، دونوں نے کپڑے اتارے اور پھر عین نے غین کے جبکہ غین نے عین کے کپڑے پہن لیے۔

یہ ہے لباس کی تبدیلی!
کہتے ہیں زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ کسی ملک کی عوام کو پانچ سال ریلیف ملا۔ حالات تھوڑے آسان ہوئے تو ان کے دل میں بھی طرح طرح کی آنیاں جانیاں گدگدانے لگیں۔ وہ زور شور سے تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگے۔ ''قسمت دہندوں'' نے ان کی کب ٹالی تھی جو اب ٹالتے۔ پس انہوں نے عوام کو تبدیلی دے دی اور پھر وہاں سب تبدیل ہو گئے۔

(جاری ہے)

سفید پوش کفن پوش ہو گئے۔

یہ ہے سٹیٹس کی تبدیلی!
کسی دور میں سکون زمین پر بھی ملتا تھا۔ اب سکون کی جگہ بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ وہ زمین کی بجائے قبر میں ملتا ہے۔ چونکہ وعدہ تھا کہ لوگوں کو سکون دیا جائے گا لہذا انہیں قبروں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ ہے سکون کی تبدیلی۔
بادشاہ سلامت نے بڑے اہتمام سے عوام کو بتایا: میں چاہتا تو دنیا کے کسی بھی دیس میں آرام سے عیاشی کی زندگی گزار سکتا تھا لیکن میں صرف تمہاری خاطر یہاں آیا ہوں ورنہ مجھے بادشاہت کی کیا ضرورت؟ تیسرے سال رعایا کو اس بات کا مطلب سمجھ آیا کہ وہ چاہتا تو بڑے آرام سے کسی بھی دیس رہ سکتا تھا لیکن اس نے تو ٹھانی ہوئی تھی کہ نہ خود آرام سے رہے گا اور نہ کسی دوسرے کو آرام سے رہنے دے گا۔

یہ ہے آرام کی تبدیلی!
کسی ملک میں ایک آدمی رہتا تھا۔ اسی ملک میں ایک دوسرا آدمی بھی رہتا تھا جو اس کا حریف تھا۔ ایک بار وہ آمنے سامنے آ گئے۔ پہلے آدمی نے دوسرے آدمی کی بہت بے عزتی کی اور اسے تانگا پارٹی کہہ دیا۔ دوسرے آدمی نے وہیں ہاتھ اٹھائے اور ''سچے دل'' سے دعا مانگی: یا اللہ! اگر یہ آدمی کامیاب ہے تو مجھے اس کے جیسا کبھی نہ بنانا۔

پھر ایک بہت بڑے جلسے میں اپنے معتقدین سے خطاب کیا اور کہا: میں اس پہلے جیسے آدمی کو اپنا چپراسی رکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ دوسرے آدمی کو بادشاہ بنا دیا گیا اور اس نے اس پہلے آدمی کو اپنا وزیر بنا لیا۔ یہ ہے اقتدار کی تبدیلی۔
اس کے دیس کا نام مشرق تھا لیکن وہ ''آلہ'' تعلیم حاصل کرنے کیلیے مغرب چلا گیا۔ واپس آیا تو لوگوں کو اپنے ''تألیمی'' دیس کی اعلیٰ سہولیات اور بلند معیارِ زندگی کے قصے کچھ اس ادا سے سنائے کہ انہوں نے اسے اپنے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا اور پھر یوں ہوا کہ روحوں اور مادی جسموں میں جھگڑا پڑ گیا۔

روحیں اعلیٰ مقام پانے کی خاطر بڑی تیزی سے بلند ہونے لگیں۔ یہ ہے روحانی تبدیلی!
غریبستان میں سیاسی زندگی اور ذاتی تعلقات میں فرق روا رکھا جاتا تھا۔ اسی طرح پروفیشنل لائیف اور پرسنل لائیف کی نوعیت کو بھی بہرحال الگ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ ایک آدمی نے ''سیاہ سی'' سفر شروع کیا۔ اس کا کزن بھی اس سفر میں اس کے ساتھ تھا لیکن پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ وہ الگ ہو گئے۔

کزن کے ہاں کوئی فوتگی ہوئی۔ غم کا مقام تھا اور مطلوب تھا اظہارِ افسوس جو کہ شرعی تقاضا بھی تھا لیکن ''مجھے کیوں چھوڑا؟'' کا غصہ غالب آیا اور جنازے پر سیاسی نعرے لگ گئے۔ یہ تھی اقدار کی تبدیلی!
ایک دور تھا جب کارکردگی زمین پر نظر آتی تھی لیکن پھر وہ دورِ خیانت تبدیل ہوا دورِ امانت سے اور اس کے ساتھ ہی کارکردگی نے بھی اپنی جگہ تبدیل کر لی۔

اب وہ زمین پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ملتی ہے اور وہ بھی رٹن شیپ میں۔ یہ ہے کارکردگی کی تبدیلی!
آمدنی پاکستانی حساب سے لیکن پٹرول کی قیمت یورپ کے حساب سے اور دہائی دو تو جواب آتا ہے کہ فلاں ملک میں پٹرول پاکستان سے بھی مہنگا ہے۔ یہ ہے قیمت کی تبدیلی!
بائیس سال کی جدوجہد اور تیاری کے بنا پر دعویٰ کہ نوے روز میں تبدیلی اور سب ٹھیک مگر اب وہی نوے روز دس سالوں میں تبدیل ہو گئے۔

بلکہ سنا ہے کامل تبدیلی کے لیے بیس سال درکار ہیں۔یہ ہے اوقات کی تبدیلی!
اعتراض ہوا دھاندلی ہوئی، کہا احتجاج کریں، کھانا اور کنٹینر میں دوں گا۔ کنٹینر کا تو پتا نہیں دیا یا نہیں البتہ کھانا ضرور دیا لیکن جیلوں میں بند کر کے۔ یہ وعدوں کی تبدیلی!
کیا بتائیں ہر چیز تبدیل، فعل کی جگہ قول، کارکردگی کی جگہ تقریر، احتساب کی جگہ انتقام، قانون کی جگہ مرضی، لکھنے کو کئی صفحات درکار مگر اکتفاء اپنے اس تازہ کلام پر۔


حقیقت حکومت کی کھلنے لگی ہے
پڑی گرد آنکھوں پہ ہٹنے لگی ہے
وہ لکڑی کو چولہے میں ڈالو مری جاں
کہ اب گیس ساشوں میں ملنے لگی ہے
سکوں اب تو قبروں میں جا کر ملے گا
کہ تبدیلی بچے بھی جننے لگی ہے
کسی دور مرغی کے بھاؤ تھی ملتی
وہی دال جوتوں میں بٹنے لگی ہے
مرے خان کو اب تو کوئی جگا دے
کہ رضیہ بھی غنڈوں میں گھرنے لگی
غریبوں کا اس دیس کیا پوچھتے ہو
کہ غربت جہاں سر پٹخنے لگی ہے
کرے گا تو بجلی کا کیا یار کوثر
کہ جب تار دل ہی کی جلنے لگی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :