جنوبی پنجاب کے امتحانی مراکز

جمعرات 11 فروری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

زیادہ امکان یہ ہے، کہ ایچ ای سی کی جانب سے آن لائن امتحان کے انعقاد کے فیصلہ پر طلباء وطالبات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی،اس سے بڑھ کر فرحت کا اور کون سا لمحہ ہوگا، جب اجتماعی طور پر پرچہ بھی آن لائن حل کرنے کا موقع میسر آئے ، اب ہم سمجھے کہ طلباء وطالبات کی کثیر تعداد کیوں سراپا احتجاج تھی،کون ساغم تھا جس نے انکو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے،انِکا صادق جذبہ آخر کام دکھا گیا اور کرونا کے نامساعد حالات میں جامعات آن لائن امتحان لینے پر رضامند ہو گئی ہیں، تاہم یہ منطق ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب آن لائن کلاسز لینے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا تو اِنکے پاس ایک سے بڑھ کر ایک بہانہ تھا کہ اکثر طلباء و طالبات کے پاس بقول انکے انٹر نیٹ کی سہولت ہی میسر نہ تھی، دیہات میں مقیم یہ ”مخلوق“ الگ سے عذر رکھتی تھی، لیکن جونہی آن لائن پرچہ جات لینے کا حکم صادر ہوا ہے ان کے چہرے مہرے کھل اٹھے ہیں۔

(جاری ہے)

نجانے اب کون سی ٹیکنالوجی اِنکے ہاتھ لگی ہے، کہ سارے دکھ ہی دور ہوگئے ہیں۔
 کیا یہ اسی کا فیض ہے کہ دنیا کی ایک ہزار جامعات میں سے صرف ارض پاک کی سات یونیورسٹیزعالمی معیار پر پورااتری ہیں، اس میں جنوبی پنجاب کی کسی جامعہ کا نام شامل ہی نہیں ہے،اگر اسی رفتار سے تدریس اور تحقیق کا عمل جاری رہا تو اس نوع کے بہت سے اعزازت ہمارا مقدر ہوں گے،اس ساری صورت حال میں جن طلباء وطالبات کو زیادہ مایوسی ہوئی ہے وہ میڑک اور انٹر اور ڈی ۔

اے ۔ای کے اُمیدوار ہیں،جن کا امتحان بہر حال امتحانی مراکز ہی میں ہونا قرار پایاہے، البتہ اِنھیں یہ سہولت ضرور میسر ہوگی کہ اب انکے امتحانات رواں سال جون یا جولائی میں متوقع ہے،کرونا کے باعث بغیر امتحان اگلی جماعتوں میں پُرموٹ ہونے والے بھی اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے اب کہ بھی اِن پر یہ عنایت ہوجائے اور وہ امتحان جیسے کٹھن مرحلہ سے بغیرکسی حساب کے گذر کر جامعات کی دیلیز پر قدم رکھ سکیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ اِنکی یہ آرزو شرف قبولیت سے محروم رہے گی،اور انکو اِس کڑے امتحان سے گزرنا ہی ہوگا۔


تاج برطانیہ کے اقتدار کا سورج جب پوری آب وتاب سے یہاں چمک رہاتھا تو اس نے تعلیمی اور تدریسی سال کے اوقات کار اس خطہ کے ماحول، موسم کو دیکھ کر طے کئے تھے، موسم کی حدت اور شدت کی مناسبت سے چھٹیاں تعلیمی اداروں میں کی جاتی تھیں میدانی اور پہاڑی علاقہ جات کے الگ الگ شیڈول جاری ہوتے تھے، نیا تعلیمی سال کب شروع ہونا ہے، اور کب اسکو ختم کرنا ہے، یہ سب اس تحقیق کا نتیجہ تھا جو انگریز بہادر نے یہاں اپنے قیام کے دوران کی تھی،ہمارے پالیسی سازوں نے بھی اسکوتاحال اَپنا رکھا ہے۔


 موسمی حالات میں تغیر،آلودگی اور دیگر مسائل پر کوئی قابل ذکر سٹڈی نہیں کروائی گئی جس کی بنیا د پر اب یہ طے ہو سکے نئے بدلتے موسم میں تعلیمی سال کا آغاز کب ہونا درست ہے، امتحانات کب لینا سُود مند ہے تعطیلات کا دورانیہ کتنا ہو، اسکی بابت وہی تعلیمی کیلینڈر نافذالعمل ہے جو سامراجی عہد سے رائج ہے،اب موسم گرما اور سرما کی تعطیلات میں اضافہ موسم کی شدت کے باعث ہنگامی طور پر کیا جاتا ہے جس سے تدریسی عمل متاثر ہوتا ہے اگر جنوبی پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں موسم گرما کا دورانیہ سرما کی نسبت بڑچکا ہے، تعلیمی سال جس کا آغاز ماہ مارچ میں ہوتا تھا اب میڑک کے نتائج تاخیر سے برآمد ہونے پر ستمبر میں کالجز میں ہوتا اور اختتام عموی طور پرموسم گرما کے ابتداء میں ہوتا ہے اسکے بعد امتحان کا مرحلہ آتا ہے۔


اَس وقت جنوبی پنجاب میں گرمی کی حدت اَپنا رنگ دکھا رہی ہوتی ہے،اس دنوں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی اذیت کا سامنا عوام کے ساتھ طلباء وطالبات کو بھی کرنا پڑتا ہے ،چونکہ انٹر بورڈ کمیٹی پنجاب بھر میں بیک وقت میٹرک اور انٹر کے امتحان کا انعقاد چاہتی ہے،لہذا جنوبی پنجاب کے تمام بورڈذ کے ارباب اختیار کے پا س سر خم تسلیم کرنے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا،ہمارے تعلیمی نظام میں یہی قابل ذکر امتحانات ہیں جن کی بنیاد پر طلباء و طالبات کے مستقبل کا تعین ہونا ہوتا ہے، علاوہ ازیں ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے امتحانات کا بھی یہی زمانہ ہوتا ہے، پسینہ میں شرابور قوم کے نو نہال جب اس حالت زار میں پرچے دیتے ہیں تو انکے چَودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، شاید وہ اس لئے ہی دستِ بددعا ہوتے ہیں کہ آن لائن پرچہ جات دینے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے ۔


یہ بات مشاہدے میں آئی ہے،کہ امتحانی مراکز کا انتخاب کرتے ہوئے طلباء کی سہولت سے زیادہ تعلقات کو اہمیت دی جاتی ہے،بورڈ کے” بابو اس کار خیر“ میں شریک ہوتے ہیں۔تنگ وتاریک کمروں اور چھوٹے ڈیسک میں امتحان دینا کتنا مشکل ہے یہ وہی طالب بتا سکتا ہے جو اس کرب ناک اذیت سے گزرتا ہے،امتحانی ہال کے پنکھوں کی رینگتی رفتار،کھڑکیوں سے اندر آتی گرمی کی لُواور حبَس ، پینے کا گرم پانی ہل من مذید کی کیفیت سے دو چار کر دیتی ہے۔


سول سیکٹریٹ کے قیام سے صوبہ بننے کی جانب جنوبی پنجاب کے سفر کا آغاز تو ہو چکا ہے،اب پنجاب پبلک اور فیڈرل سروس کمیشن کے علاوہ دیگر مقابلہ جاتی امتحانات متوقع صوبائی صدر مقام میں منعقد ہو رہے ہیں تو جس طرح لاہور میں اضافی امتحانی مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اسی طرح موسم کی حدت اور شدت کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں بھی بڑے شہروں میں مقامی حکومتوں ،بورڈزاورجامعات کے مالی تعاون سے امتحانی مراکز قائم کر کے طلباء وطالبات کے لئے آسانی پیدا کی جاسکتی ہے ۔


کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں اساتذہ کے اس نقطہ نظر کی حمایت میں ایک پالیسی رائج ہے، کہ جب تک طالب علم کو تمام ضروری سہولیات مہیا نہیں ہو پاتیں آپ اِنکو تعلیمی معیار کی تنزلی کے لئے ذمہ دار نہیں ٹھرا سکتے، ہمارے ہاں ا س ماحول میں امتحان لینے کی ذمہ داری اخلاقی طور پر آخر کس کو قبول کر نی چاہئے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :