قبضہ مافیاز

منگل 16 فروری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوا ہے کہ اِن دنوں ریاستی مشینری سرکاری اراضی ان قابضین سے وا گزار کروانے میں مصروف ہے جنہوں نے قانونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری زمین کو اپنے زیر استعمال رکھا ہوا ہے،اس میں زرعی،اور رہائشی بھی شامل ہے، اِن دنوں اِسکی زد میں بڑے بڑے سیاستدانوں کے فارم ہاوسز بھی آرہے ہیں،اس کاروائی میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لانے کے احکامات انتظامیہ کو وصول ہوئے ہیں،لیکن اپوزیشن اس کارستانی کو بھی انتقامی عینک سے دیکھ رہی ہے، اور اسکو بھی ”سلیکٹڈ“ مشن کہہ رہی ہے، جبکہ سرکار کا موقف یہ ہے کہ ماضی کے قبضہ مافیاز اِنکے زیر سایہ ہی تو پناہ لیتے رہے ہیں، سب سے زیادہ شکوہ تو اُور سیز پاکستانیوں کو ہے کہ انکے خون پسینہ کی کمائی اِن کی آنکھوں کے سامنے لٹ جاتی ہے، وہ بے بسی کی تصویر اس لئے بنے رہتے ہیں کہ قانون میں موجود سقم اس قماش کے لوگوں کا مدد گار اور معاون ثابت ہوتا ہے،کچھوے کی مانند چلتا انصاف کا یہ نظام اِنکو صبروشکر کے ساتھ وآپس اپنی جاب پر جانے پر مجبور کر دیتا ہے،بھاری بھر زرمبادلہ کے اِحسان تلے دبی حکومتیں انکے مسائل کے حل کی یقین دہانی تو کراتی ہیں لیکن اس نوع کے مافیاز ان کے پاؤں کی زنجیر بھی بن جاتے ہیں، انکی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کو اپنے قریبی عزیز کا ذاتی پلاٹ واگذار کروانے کے لئے لاہور کی ریاستی مشینری کو بطور خاص متحرک کرنا پڑا تھا۔

(جاری ہے)


ریاستی زمینوں پر قبضہ کرنے کی روایت بڑی پرانی ہے،اسکا آغاز تو قیام پاکستان ہی سے ہوگیا تھا، انڈیا سے لٹ پٹ کر آنے والوں کو جب اپنی زمین کے کلیم نہ ملے تو انھوں نے کسی در دستک دینے کی بجائے چُپ سادھ لی تھی، اَس وقت بھی مخصوص ذہنیت کے مافیاز نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں رَتی بھر شرم محسوس نہ کی، کچھ مہاجر خاندان آج بھی تنگ و تاریک کمروں میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں۔

فی زمانہ بھی قبضہ مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ وزیر قانون پنجاب کو یہ اعتراف کر نا پڑا ہے، کہ اس وقت بھی لاہور شہر میں ۵۰۰ سے زائد ہاوسنگ سوسائیٹیز غیر قانونی ہیں، جس میں عوام کے کھربوں روپے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔
سرکاری محکمہ جات جن کی زمینیں اس گروہ کے لئے آسان ٹارگٹ ہے وہ اوقاف اور ریلوے کی اراضی ہے۔ قابضین ایسی زمین کو ہدف بنا کر وہاں کچی آبادیاں قائم کرواتے ہیں،اگر ان میں جانے کا اتفاق ہوا ہو توآپکو یہ جان کر حیرانی ہوگی،کہ سرکاری اراضی کے باوجود ان گھروں میں بجلی، پانی، اور سوئی گیس کے کنکشن موجود ہوتے ہیں،بعد ازاں سیاسی قیادتوں پر دباؤ ڈال کر مالکانہ حقوق دلوانے کے لئے قبضہ مافیا متحرک ہو جاتا ہے،اسکی آڑ میں زمین ہتھیانے کے تمام حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔


انگریز بہادر نے جب نہری نظام کی بنیاد رکھی تو نئے چکوک بھی آباد کئے تھے ،مقامی افراد کے مسکن کے علاوہ مستقبل کی آبادی کے لئے بھی کافی رقبہ رکھا گیا،علاوہ ازیں سماجی ضرویات کے لئے رقبہ مختص کیا گیا،،اس رقبہ کو چراگاہ کہا جاتا ہے ،عطیہ داروں کے
علاوہ معاشی ضرورت کے لئے ان گھرانوں کو بھی زرعی اراضی آلاٹ کی گئی جنھوں نے سماجی خدمات کا فریضہ انجام دینا تھا،دیہاتی اصطلاح میں اسے افرادکو ”کمی“ کہتے ہیں، لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ نے اسکی بھی بندر بانٹ کر دی ہے، شائد ہی کوئی دیہات ایساہو جس میں یہ رقبہ مستحقین کو ملا ہو ورنہ اس پر بااثر افراد ہی قابض پائے گئے ہیں۔

اس سرکاری زمین کو ووٹ کے حصول اور سیاسی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔سرکاری اہلکاروں سے مک مکا کر کے سرکاری زمین کو اپنے نام منتقل کروا کر اسے فروخت کر کے اپنی جیب گرم کرنے کی روایات بھی اس کلچر میں موجود ہیں، اس لاقانونیت کا بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بدولت اب دیہاتوں میں رہائشی زمین کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر نے لگی ہے۔


شہروں میں بھی بہت سی سرکاری اراضی سماجی ضرورت کے لئے رکھی گئی تھی تاکہ مستقبل کی ضرویات کو پورا کیا جا سکے، تعلیمی ادارے، شفا خانے، کھیل کے میدان ،قبرستان بنائے جا سکیں، لیکن تعلیم یافتہ آبادی نے اس کا بھی حشر نشر کیا ہے کراچی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ ،مہذب سمجھے والے روشنیوں کے شہر میں تو سرکاری اراضی پر قبضے دن کی روشنی میں اداروں کی ناک کے نیچے ہوتے رہے،اس سے بڑا المیہ یہ ہوا وہ سیاسی قیادت جس کے ناتواں کندھوں پرریاست کے اثاثہ جات کے تحفظ کی ذمہ داری تھی وہی قبضہ مافیاز کے ہمدرد نکلے ،معروف کالم نگارادرشیر کوس جی مرحوم موّقر انگریزی اخبار میں ان ناجائز قبضہ جات پر کالموں میں دوہائی دیتے رہے،لیکن انکی حیاتی میں سرکاری زمین قابضین سے وا گزار کرانے کا مرحلہ نہ آیا۔


قابل ذکر یہ ہے ان گروہوں کے بارے میں جب عام شہری معلومات رکھتا ہے تو پھر بھاری بھر وسائل رکھنے والی انتظامیہ کیسے بے خبر رہ سکتی تھی،ریاست کا وفاقی دارالحکومت اس قماش کے لوگوں سے محفوظ نہیں ہے تو پھر عام قصبہ، دیہہ، ٹاؤن کیسے بچ سکتا ہے۔سرکاری اراضی کے علاوہ ذاتی جائیداد پر قبضہ کی داستانیں بھی ہمارے سماج کا حصہ ہیں،روایت ہے کہ پشاور میں جنرل ضیاء الحق کے مکان پر ایک شہری نے کرایہ دار کے طور پر قبضہ کیا،تھکا دینے والا عدالتی سفر بھی اِنکو اِس وقت تک ریلیف فراہم نہ کر سکا جب تلک موصوف خودبرسر اقتدرنہ ہوئے،یہ اس بات کی شہادت ہے کہ اس مافیا کے ہاتھ کتنے لمبے ہوتے ہیں ۔


سرکار نے سرکاری اراضی پر قبضہ چھڑانے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لئے بہت سخت ترین مراحل سے گذرنا پڑے گا،اس وقت بھی ہماری عدالتوں میں ناجائز قبضہ کے ہزاروں مقدمات نسل در نسل سے زیر التواء ہیں، جن میں بیوگان کے کیس بھی شامل ہیں ،اگر سرکار اخلاص کے ساتھ اس طرز کے مافیاز سے جان چھڑانے کی آرزومند ہے تو سب سے پہلے اِن اَفراد کو کٹہرے میں لانا ہو گا جنہوں نے سرکاری اراضی پر قبضہ کروانے میں” سہولت کار“ کا فریضہ انجام دیا ہے، اگر انکو قرار واقعی سزا دی جائے اور قبضہ واگذار کروانے کا خرچہ ان ہی سے وصول کیا جائے ۔

تاکہ مستقبل میں اسکی روک تھام ممکن ہو۔
 سول انتظامیہ کو یہ ٹارگٹ دیا گیا ہے،ان کی معاونت ہی سے تو قبضہ مافیا مسلط رہا ہے کسی سرکاری مگر ایماندار آفیسر نے جب بھی مافیاز کا گھیرا ؤ کیا اس نے ”صاحب ‘ بہادر‘کی حیاتی تنگ کر نے کی سازش کی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ سرکار ان مافیاز پر غلبہ پاتی ہے یا ماضی کی طرح جیت اِسی کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :