جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ

جمعہ 9 اپریل 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

جنوبی پنجاب سیکٹرٹیریٹ کے قیام کو تو ابھی ایک سال سے بھی کم مدت ہوئی ہے، یہ تو مکمل ابھی فعال تک نہیں ہوا ہے کہ اسکی بے اختیاری کی باز گشت سنی جارہی ہے، عوام کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے،اس وقت جو ہستی پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدہ پر برا جمان ہے اسکا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے، گذشتہ سال اگست میں جب یہ شخصیت اراکین اسمبلی ملتان کے درمیان سرکٹ ہاؤس میں جلوہ افروز تھی تو انھوں نے ملتان میں جنوبی پنجاب کی عوام کے لئے مکمل باآختیار سیکٹر یریٹ بنانے کی نوید سنائی تھی، وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس مقصد کے لئے پانچ سو کنال اراضی متی تل روڈ پر مختص کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا تھا،علاوہ ازیں اہل ملتان کے لئے جم خانہ کے قیام کا بھی اعلان بھی ہوا تھا، نیز دس صوبائی محکمہ جات جن میں قانون، ہاوسنگ اینڈ اربن، تعلیم، صحت،پولیس، زراعت، جنگلات، فیشریز،وائلڈ لائف قابل ذکر ہیں کے دفاتر بمعہ سرکاری ریاستی مشینری کے ملتان منتقل کر نے کو کہا تھااس موقع پر انھوں نے افسران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اپنے دروازے عوام کے لئے کھلے رکھیں تاکہ انکے مسائل انکی دہلیز پر ہی حل ہو سکیں انکو لاہور کی مسافت کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ رفتہ رفتہ وہ افسران عوام پر دروازے کھلے رکھنے کی بجائے انھیں بند کر کے وآپس صوبائی دارلخلافہ لاہور سدھار گئے ہیں،چند ماہ میں عوام کو کتنا ریلیف فراہم کرنے میں سیکٹر ٹریٹ کامیاب ہوا ہے اس بابت تو راوی خاموش ہے کیونکہ افسر شاہی کی اکھاڑ پچھاڑ کی گرد ابھی تک پوری طرح بیٹھی نہیں تھی کہ نئے احکامات جنوبی پنجاب میں تعینات افسران کو موصول ہوگئے۔

(جاری ہے)


جنوبی پنجاب کے عوام کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے الگ صوبہ کے مطالبہ سے صرف نظر کر کے فی الوقت الگ سیکٹرٹریٹ کے قیام پر ہی رضا مندی ظاہر کر دی تھی تاہم روز اول ہی سے اس کے قیام کو منتازعہ بنا دیا گیا تھا، اس کو بھی دو حصوں ملتان اور بہاولپور میں تقسیم کر کے یہاں کی جنتا میں غلط فہمی پیدا کر نے کی سازش کی گئی تھی۔ اس سے پہلے ساری قابل ذکر جماعتیں نیاصوبہ بنانے کا لولی پاپ دیتی رہی ہیں، ہر نئے الیکشن پر یہ نعرہ جنوبی پنجاب میں بطور خاص زندہ کیا جاتا ہے، اس کے وعدہ پر ووٹ لیا جاتا رہا ہے، لیکن عملی طور پر اس کے لئے کوئی ہوم ورک سر ے سے موجود ہی نہیں ہے۔

تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اتنی بڑی آبادی والے صوبہ کی بہترین گوورننس کے لئے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کر نا اب لازم ہے۔
 اگر سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر عہد میں اس خطہ سے ہمارے اراکین پارلیمنٹ کلیدی عہدوں پر رہے ہیں ان میں اس جماعت کے بھی ممبران رہے ہیں جس کو دو تہائی اکثریت حاصل رہی تھی، اس وقت بھی جنوبی پنجاب کے لئے الگ صوبہ کا تذکرہ سننے کو ملتا تھا مگر یہ صرف اسمبلی سے باہریا ان مجالس میں ہوتا تھا جہاں مخالف جماعت کے اراکین مخاطب ہوتے تھے تو وہ برملا کہتے کہ جب انھیں اقتدار ملے گا یہ ضرور صوبہ بنے گا، چشم فلک نے ہر دور دیکھا ہے ، لیکن الگ صوبہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ہے۔

اس کو تو
 رکھیے ایک طرف اس کے قیام میں تو آئینی قدغن ہے جب تلک یہ پل صراط پار نہیں ہوتا ، نئے صوبہ کی خواہش رہنے کے امکانات ہیں لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ ہر عہد میں اہم سیاسی عہدوں پر فائز وزراء کرام نے اس خطہ کے منصفانہ وسائل کے حصول کے لئے کتنی جدوجہد کی ہے، اعلیٰ ترین معیاری تعلیمی جامعات کے لئے کتنی کاوشیں کی ہیں؟ اس علاقہ میں موجود صحرا کو آباد کرنے کے لئے کونسی اجتماعی کاوش کی ہے کالا باغ ڈیم کے قیام کے لئے اپنی ہم منصب سیاسی قیادت سے کتنے مذاکرت کر کے انھیں قائل کرنے کی جسارت کی ہے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد نہری آبی وسائل کی فراہمی اور نہروں کو پختہ کرنے کے لئے کسان کے حقوق کی کونسی جنگ لڑی ہے، عالمی قوانین کے تحت د ریائے ستلج ، راوی کا چالیس فیصد پانی انڈیامال مویشی ، آبی پرندوں کی حیات کے لئے چھوڑنے کا پابند ہے اس پر جنوبی پنجاب کی سیاسی قیادت نے کس حد مرکزی حکومت کو مجبور کیا ہے ؟صنعتی ترقی کے لئے کوئی تھینک ٹینک جو یہاں تعلیم یافتہ کلاس یا جامعات پر مشتمل ہو تشکیل دیا ہو جس نے یہاں زراعت سے وابستہ خام مال کی روشنی میں صنعت کے قیام کے لئے ہوم ورک کیا ہو،ہماری خوش بختی کہ گذشتہ دو ادوار سے ہمارے وزیر خارجہ کا تعلق اس علاقہ سے رہا ہے انھوں کتنے تعلیم یافتہ بے روزگاروں کو بیرون ملک ملازمت دلوانے کی کاوش کی ہے؟ یہ سوالات ہیں جو ہر اس شہری کے ذہن میں آتے ہیں جو وسطی، شمالی پنجاب کی ترقی دیکھتا ہے۔


عمومی تاثر یہ ہے یہاں کی لیڈر شپ کی جرات ذاتی مفادات کے بوجھ تلے دب جاتی ہے جو وسطی پنجاب میں دیکھنے کو ملتی ہے ،انکی کی ساری آئینی مدت گروہی مفاد کے گرد گھومتی ہے، جس کا فائدہ مقتدر طبقہ اٹھاتا ہے، اس لئے ہمیں وہ سماجی، معاشی ترقی یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے جو پنجاب دیگر علاقہ جات میں نظر آتی ہے،اس وقت بھی یہاں کی شرح خواندگی میں خاصہ تفاوت پایا جاتا ہے ،ملک کی بہترین درس گاہیں اور ورزگار کے زیادہ مواقع وسطی پنجاب میں ہیں وہاں اچھے اداروں، گھریلو صنعتوں کے قیام کی بڑی وجہ وہاں کی سیاسی لیڈر شپ اور بزنس کلاس ہے جس نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


جنوبی پنجاب کا یہ خطہ زراعت کی دولت سے مالا مال ہے، اسکے ریگستان، صحرا، باغات اپنی شان و شوکت رکھتے ہیں، لایئو سٹاک میں بڑا پوٹیشنل ہے، مکئی ،چاول، باجرہ ،گنا،کپاس، گلاب، سبزیات، معدنیات دیگر نقد آور فیصلیں اسکے کسان کی معاشی ضروریات پورا کر سکتی ہیں بشرط کے اس کے خام مال کے لئے صنعت کو فروغ دیا جائے کسان کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے جدید ذرائع متعارف کروائیں جائیں، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کئے جائیں، نئے جدید تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے، شعبہ طب میں اعلیٰ تعلیم کے دروازے مقامی نوجوانان کے لئے کھولیں جائیں، ہمارا تاریخی ورثہ اس علاقہ میں سیاحت کے فروغ میں اپنا مقام رکھتا ہے۔


اس خطہ کی محرومیوں کے خاتمے اور خوشحالی کے لئے تمام مکتب فکر کو بلا امتیاز اپنا کردار ادا کر نا ہو گا،اسکا ایک راستہ مقامی حکومتوں کے قیام کا بھی ہے جو ہر اعتبار سے آزاد اور خود مختیار بھی ہوں، لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تلک صوبہ کے وسائل منصفانہ
 طور فراہم نہیں کے جاتے،اسکو یقینی بنانے کے لئے اراکین پارلیمنٹ کا کردار اہم ہوگا جن کے فرائض منصبی میں اس علاقہ کی منصوبہ بندی اور ترقی کا قرض ہے جس میں جنوبی پنجاب کا سیکٹر ٹریٹ ہی فعال کردار ادا کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس کو مکمل اختیارات کے ساتھ یہاں سرکاری فرائض انجام دینے کا موقع فراہم کیا جائے، یہ محض سیاسی وعدہ ہی نہیں یہاں عوام کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :