
منصفی کس سے چاہیں
پیر 20 دسمبر 2021

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
شائد اسی وجہ سے بدولت یہ اصطلاح وجود میں آئی کہ وکیل کرنے کی بجائے جج کرنا لینا زیادہ فائدہ میں رہتا ہے، عدلیہ کے اعتبار سے بھی یہاں بھرے بریف کیس کی کہانیاں زیر گردش رہی ہیں، عدلیہ کے منصفین نجانے یہ کیوں بھول گئے کہ کچھ عالمی” منکر نکیر“ اِنکی ساری حرکات و سکنات کو مانیٹر کر رہے ہیں دکھائی یوں دیتا ہے کہ عالمی ادارہ بھی فراہمی انصاف کے قومی اداروں کی ”حماقتوں “ کی تاب نہیں لا سکا، اس نے سرکار اور مذکورہ ادارہ جات کو ہی آئینہ دکھاکر انھیں راہ راست پر لانے کی کچھ سعی کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پولیس، عدلیہ کے علاوہ دیگر اداروں کی لاقانونیت اور بدعنوانی کے اعتبار سے رینکنگ کی گئی ہے، اس دوڑ میں حسب سابق پولیس کا محکمہ ہی اول قرار پایا ہے اس کے بعد عدلیہ اور پھر باقی اداروں کے بلند درجات کا تذکرہ ملتا ہے رپورٹ کی اشاعت کے بعد، وزیر اطلاعات نے اپنی ٹویٹ میں سرکار اور اداروں کو اصلاح احوال کی دعوت دی ہے۔
گذشتہ دنوں عدلیہ کے حوالہ سے یوان بالا میں بھی باز گشت سنائی دی ، جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد نے اس کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دیئے انکی یہ وڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہے۔اس کے بعد یہ معاملہ سٹینڈنگ کمیٹی کوتجاویز کے لئے بھیج دیا گیا۔
کچھ عرصہ قبل عدالت عظمیٰ نے بھی ایک سروے کروایا تھا،جس میں مذکورہ عدالت نے اعتراف کیا کہ بہت سے درخواست گذار ایسے ہیں جن کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے بارے میں فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا، اس سروے میں یہ بھی لکھا گیا کہ جائیداد کے حوالہ سے دائرکئے گئے مقدمات کو فیصلہ ہونے تک 30 سال کا کٹھن سفر کرنا پڑتا ہے، عوامی سطح پر عدلیہ کے بارے میں ایک را
ئے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ عدالت کے ایوان کا قفل کھولنے کے لئے سونے کی چابی ہونا لازم ہے۔
مذکورہ سنیٹر نے جو سوال اٹھایا ہے وہ یہ بھی ہے کہ ہماری عدلیہ کے منصفین کو جو مراعات حاصل ہیں ان کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے مگر انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے ہماری عدلیہ180 ممالک میں سے124 ویں نمبر ہے یہ کارکردگی خود ایک سوالیہ نشان ہے۔اگر عدلیہ کا کوئی خود احتسابی کا نظام پایا جاتا ہے تو پھر 21 لاکھ مقدمات زیر التواء کیوں ہیں؟ اب تلک ہماری عدلیہ نے کون سے بڑے مافیا کو پکڑا اور اسے بے نقاب کیا ہے؟ کیا انصاف صرف صاحب ثروت ہی کا حق ہے؟
تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام دیگر حقوق پر تو سمجھوتہ کر سکتے ہیں، بھوک ،مہنگائی برداشت کر لیتے ہیں مگر انصاف کی عدم فراہمی معاشرہ میں اضطراب پیدا کرتی ہے، ناانصافی لاتی ہے ،طبقاتی تقسیم کو اور گہرا کرتی ہے، اس لئے حضرت علی نے فرمایا تھا کہ”ظلم کے ساتھ کوئی حکومت اور ریاست قائم نہیں رہ سکتی“عدلیہ میں بے انصافی کی ایک وجہ جج صاحبان کی تعداد میں کمی بھی بتائی جاتی ہے۔
انصاف فراہمی میں عدلیہ کے بعد جس ادارے کلیدی کردار ہے وہ محکمہ پولیس ہے، عالمی رپورٹ جو عوامی سروے پر مبنی ہے، اس کے مطابق سب سے زیادہ غم و غصہ عوام میں پولیس کے رویہ کے بارے میں پایا جاتا ہے، اس کا طریقہ واردات وہی ہے جو سامراجی عہد میں ہوتا تھا، آزادی نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا ہے، یہ اب تلک اپنے آپ کو سامراجی اقتدار کا حصہ سمجھتی ہے، سرکار کی تمام تر کاوشوں کے باوجود عوام اور پولیس میں اب بھی خاصا فاصلہ پایا جاتا ہے، مذکورہ محکمہ کے افسران اس خلیج کو کم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، اب تلک اس کا خوف اس بات کی علامت ہے کہ یہ محکمہ عوام کے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا ہے،جبر اور تشدد کے روائتی طریقہ تفتیش کا نقصان یہ ہے عوام چاہنے کے باوجود جرائم کی روک تھام کے خاتمے میں پولیس سے تعاون کر نے کو تیار نہیں ہے،تفتیش میں سائنسی انداز اپنانے کی بجائے پولیس مقابلہ کو اولیت دینا ،اسکی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
جماعت اسلامی کے راہنماء ڈاکٹر فرید پراچہ اپنی کتاب” عمر رواں“ میں رقم کرتے ہیں،کہ ان دنوں لاہور میں پولیس مقابلے عام تھے میرے ملنے والے کا ایک روز فون آیا کہ اسکا نواسہ جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اور جیل میں ہے کو آج رات پولیس مقابلہ میں مار دیا جائے گا، فرید پراچہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپکو کیسے علم ہے اس نے کہا کہ فہرست میں اس کا نام ہے ،جواباً کہا کہ ایسی کوئی فہرست نہیں بنتی، جب اس نے اصرار کیا تو میں نے انتظامیہ سے پتہ کیا میرے لئے باعث حیرت تھا کہ اس وقت کے ایس ایس پی نے اسکی تصدیق کی اور لڑکے کا نام فہرست سے نکال دیا،اس کتاب میں انھوں نے پولیس کے کئی کارناموں کا ”ذکر خیر“ کیا ہے، جس میں ان کے دوست کی کار کی چوری بھی شامل ہے،جسکی تلاش کے لئے معروف کریمینل کی خدمات لی گئی تو اس نے پورے سسٹم کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں، کار چوروں کے دو ٹھکانے تولاہور کے قریب اور بعض ایم این ایز کے ڈیرے ہیں جہاں پولیس چھاپہ نہیں مارتی ہے،شہر سے گاڑی باہر لے جانے کے لئے ناکوں پر منتھلی لگی ہوتی ہے،جب صوبائی صدر مقام کا یہ حال ہو تو باقی مقامات کی حالت کیا ہوگی؟
انصاف کی فراہمی قومی ضرورت ہی نہیں بلکہ امن و امان سرمایہ کاری، جرائم کی روک تھام،ظلم، زیادتی کے خاتمے،مساوات، عدل و انصاف کا قیام عالمی وقار کے لئے لازم ہے
عدالتی تاریخ میں قابل قدر منصفین کے فیصلے آج بھی بولتے ہیں،انکا کردار سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ وزیر اطلاعات کو محض ٹویٹ کرنے پر اکتفاء نہیں کرنا ہے ،بلکہ رپورٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر ایسے نظام کو عملی جامہ پہنچانا چاہئے جو عام فرد کو بلا امتیاز اور بلا تاخیر انصاف فراہم کر سکے،نظریہ ضرورت سے لے کر بدعنوانی تک عدلیہ کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنا فرض بھی ہے ،عدلیہ پر قرض بھی،بصورت دیگر ہر شہری یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ منصفی کس سے چاہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.