ورکر کو عزت دو

پیر 12 اکتوبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اپوزیشن کی منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد قومی سطح پر سیاسی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے،بات ڈراینگ روم کی سیاست سے باہر نکل رہی ہے، احتجاجی پروگرام تشکیل پا چکا ہے،دوسال کی خاموشی کو توڑنے کے بعد قیادت میدان میں اتررہی ہے،ہر چند قائدین اپنی سیاسی سرگرمی کو عوام کے مفادات کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں،مہنگائی، بے روزگاری،اوردیگر عوامی مسائل کو اپنی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں، ووٹ کو عزت دینے کابیانیہ بھی ان حلقوں میں گردش کر رہا ہے،لندن میں مقیم قیادت نے اپنے” معروف خطاب“ میں اس کا اظہار بھی کیا ہے،اپوزیشن پر شکوہ ہے،کہ انتخابات میں مداخلت سے عوامی مینڈیٹ چرا لیا جاتا ہے،یوں مسند اقتدار پر برا جمان اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کر پاتے اور جلد عوام میں غیر مقبول ہو جاتے ہیں،نیز یہ کہ عوامی حکومتوں کو پارلیمانی مدت پوری ہی نہیں کرنے دی جاتی،اس لئے یہاں جمہوری نظام فروغ نہیں پا سکا ہے۔

(جاری ہے)


 سرکار کا موقف ہے کہ اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت چونکہ اس وقت زیر عتاب ہے ،منی لانڈرنگ جیسے قبیح جرم میں نیب کو مطلوب ہے،اپنی چوری چھپانے کے لئے یہ احتجاجی تحریک کا سہارا لے کر این آر او چاہتی ہے،سرکار کے نقطہ نظر کو عوام میں کتنی پذیرائی ملتی ہے اور اپوزیشن کی کال پر عوام کا کیا رد عمل ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا،کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن کو اپنی بات عوام تک پہنچانے کا پورا حق ہے،عوامی اجتماعات کی وساطت سے مطالبات حکومت کو پیش کرناسنہری روایت ہے مگر ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی خوبصورت قدر رائج نہیں ہے ، عوامی تحریک کو تشدد سے دبانے،قیادت کو گرفتار کرنے،اپوزیشن کو غیر جمہوری طریقہ سے توڑنے، فارورڈ بلاک بنانے کی شہادتیں ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔


دلچسپ امر یہ ہے کہ سرکار سے نبرد آزماء اپوزیشن جماعتوں کے عہد اقتدرا میں بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے،غداری کے فتووں سے لے کر جھوٹے مقدمات کے اندارج تک یہی مشق دہرائی جاتی رہی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی سرکار اس کلچر کو تبدیل کر کے اپنے نامہ اعمال میں اضافہ کرتی ہے یا وہی روایتی پکڑ دھکڑ شروع کر دیتی ہے،تاہم بڑے میاں جی اور دیگر افراد کے خلاف بغاوت کے مقدمہ سے عیاں ہے کہ سرکار کے عزائم اچھے نہیں۔


 اٹلی کے پروفیسر سیولا ٹور نے کہا ہے کہ جس طرح انسانی نظام تنفس میں دو پھیپھڑے کام کرتے ہیں نظام جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کو یہی ا ہمیت حاصل ہے،بد قسمتی سے کہ ہماری قومی سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے،اس لئے کارکنان اس جذبہ سے سرشار ہو کر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے ثبوت دیتے ہیں، مشاہدے میں آیا ہے، غیر منظم پارٹی ورکر قومی املاک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے،بعدازاں ایک نیا پنڈورا بکس کھل جاتا ہے،اس لئے اپوزیشن قیادت کے ناتواں کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان اجتماعات کو پر امن اور منظم بنانے کی ہدایات شرکاء جلوس کو دیں۔


پارلیمانی ریاست میں سب سے اہم فورم تو پارلیمینٹ ہی ہوا کرتا ہے،جہاں قانون سازی کے ذریعہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ
 ساتھ اداروں کی مضبوطی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے،شومئی قسمت اس بابت بھی اپوزیشن، سرکار کا ریکارڈ کبھی اچھا نہیں رہا ،جمہوریت کا درد جن جماعتوں کے دل میں جاگزیں ہے انھوں نے ہی ایسی درخشاں روایات نہیں چھوڑی ہیں، عوامی مشکلات سے انکو بھی بری الذمہ قرار
 نہیں دیا جاسکتا،میثاق جمہوریت سے لے کر ماضی کے اختلافات کو دفن کرنے تک ،داروں کی بالا دستی، انتخابی اصلاحات کے وعدے وفاء کیوں نہ ہوئے؟
دو بڑی جماعتوں کو قلق ہے کہ غیر جمہوری طاقتیں انکے مینڈیٹ چرا لیتی ہیں اب تو کوئی پردہ داری نہیں کہ ان کی قیادتوں کو مذکورہ طاقتوں کے زیر سایہ ہی پروان چڑھنے کا شرف حاصل ہے،یہ باتیں ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں ایک لمحہ کے لئے اسے نظریہ ضرورت ہی قرار دیا جائے، تو اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو ایسی قوتوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کاخیال کیوں نہ آیا؟اداروں کی ورکنگ میں گنجائش ہی نہ چھوڑی جاتی کہ کسی کو مداخلت کا موقع مل سکے۔


قوم جمہوری ریاستوں کے عوام کو رشک بھری نگاہوں سے اس لئے دیکھتی ہے، کہ وہاں جمہوریت انسانی خدمت میں پیش پیش ہے،ووٹ کو عزت دینے والوں کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہ ہوگا جب تلک وہ پارٹی ورکر کو عزت نہیں دیں گے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ نعرہ کے خالق اس موقع پر پارٹی پرچم ایک عام ورکر کے ہاتھ میں دے کر اس تحریک کا آغاز کرتے،دونوں بڑی جماعتوں کی بشرف نگاہ پڑی بھی تو ا پنے ہی نو نہالوں پر، جنہوں نے محلات میں آنکھ کھولی ہے،سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں، انھیں عام آدمی کے دکھ کا اندازہ کیسے ہوگا؟ جن کے اپنے فرزند بیرون ملک تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہوں کیا انھیں اخلاقی طور پر زیب دیتا ہے کہ وہ عوام کو اپنی تحریک کا ایندھن بنائیں۔


بے روزگاروں کے والدین کس کرب سے گذرتے ہیں،محدود آمدنی میں گزارہ کیسے کیا جاتا ہے،کون کون سی خواہشات کا گھلا گھونٹنا پڑتا ہے؟ آج جس گرانی کا قوم کو سامنا ہے اس کا سبب وہ قرض ہے جو ان قائدین نے اپنے ادوار میں ترقی کے نام پر لئے تھے،لیکن یہ عوام پر صرف ہونے کی بجائے مفاداتی سیاست کی نذر ہوئے۔
ایک لمحہ کے لئے یہ تصور کر ہی لیا جائے کہ سرکار کے پاؤں اکھڑاور، نئے انتخاب لازم ہو جائیں گے تو یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ متوقع الیکشن صاف شفاف ہوگا؟ اس کی وساطت سے عام شہری پارلیمنٹ میں پہنچ پائے گا،اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ جب تلک متوسط طبقہ کی نمائندگی پارلیمنٹ میں نہیں ہوگی اس کے دکھوں کا مداوا ممکن ہی نہیں،موجودہ سرکار نے الیکٹیبل کی اک نئی طرح ڈال کر اس نظام کو پراگندہ کر دیا ہے،اس نے اپنے پر امید ورکرز کو عزت نہ دے کر مایوس کیا ہے،اگر پھر یہ کھیل کھیلا گیا تو عوام کے ہاتھ کیا آئے گا،تمام تر مراعات تو اشرافیہ ہی ”انجوائے“کرے گی، بلے اور چوہے کا یہی کھیل گذشتہ ستر سال سے کھیلا جارہا ہے،پچاس کی دہائی کے بعد مفاداتی سیاست نے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،عوامی حلقے چہروں کی بجائے نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں،جس مدنیہ ریاست کا صبح وشام تذکرہ کیا جاتا ہے اسکی عملی شکل دیکھنے کے آرزومند ہیں،اگر سرکار کی کارکردگی مثالی ہوتی تو اپوزیشن کو اس نوع کااحتجاج کرنے کا حوصلہ ہی نہ ہوتا،لیکن ہر نیا ”یو ٹرن“عوامی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔

اس کے باوجود سرکار کو جمہوری اقدار کا خیال کرتے
 ہوئے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہے تاکہ مل بیٹھ کر قومی معاملات سلجھائے جاسکیں۔اس قوم نے آدھا ملک گنواکر مارشلائی حکومتوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے،بدترین جمہوریت آمریت سے بہرحال بہتر ہے، اگرچہ ہر بار مفاد محدود کلاس ہی کا مقدر ٹھرا،اگر یہ تحریک بھی ذاتی مفادات کے لئے اٹھائی جارہی ہے،توپھر عوام کو اس میں سوچ سمجھ کر شریک ہونا ہے اگر مقصد چہروں کی بجائے نظام کی تبدیلی ہے تو اس کی کامیابی کے امکانات ہو سکتے ہیں جس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔تاہم پارٹی ورکرز کو عزت دیئے بغیر صرف چہرے ہی بدلتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :