ایک وقت کی روٹی بھی شہر اقتدار پر بوجھ لگنے لگی

ہفتہ 11 اپریل 2020

 M.Awais

محمد اویس

اسلام آباد میں کورونا کی وبا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کو تیسرا ہفتہ بھی اختتام کی جانب رواں دواں ہے لیکن شہریوں کی مشکالات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں اسلام آباد میں جہاں ایک جانب کورونا سے بچننے کے اقدامات ہیں تو وہیں لاک ڈاؤن کے باعث شہریوں کے مسائل بھی بڑھنے لگے ہیں،شہر اقتدار میں 19 روز سے دفعہ 144 نافذ ہے جس کے باعث ڈبل سواری اور 4 افراد سے زائد کے اجتماع پر پابندی عائد ہے سماجی دوری اختیار کرنے کے بھی احکامات جاری کیئے جارہے ہیں لیکن کچھ ضروری سفر کرنے والے حضرات ان دنوں سستے سفر سے بھی گئے بارہ لاکھ سے زائد آبادی والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ سمیت میٹرو بس سروس جزوی طور پر معطل ہے،دوسری جانب مہینے کے آغاز میں لوگوں کو تنخواہ ملی تو ایزی پیسہ،ان لائن ٹرانسفر ،ایزی لوڈ کی دکانوں کو صرف 3 دن کھولنے کی اجازت دی گئی تاکہ شہریوں کی اپنے پیاروں تک رقم کی ترسیل کو آسان بنایا جاسکے لیکن پرائیویٹ نوکری پیشہ حضرات جن کو 5 تاریخ کو تنخواہ ملی وہ رقم دوسری شہروں تک منتقل کرنے کے لیئے فکر مند دکھائی دیتے ہیں شہریوں کا کہنا ہے نہ بینک اکاؤنٹ ہولڈر ہیں نہ ہی اس ایمرجنسی کے وقت میں رقم کو بھیجننے کا کوئی اور طریقہ ہے،کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر او پی ڈی بھی معطل تھی خدا خدا کر کے 16 روز بعد اسپتالوں کی او پی ڈی بحال کی گئی تو شہریوں نے سکھ کا سانس لیا،اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 20 سے زائد مقدمات درج کیئے جا چکے ہیں جبکہ سیکنڑوں موٹر سائیکلیں تھانوں میں بند ہیں، انتظامیہ کی جانب سے جاری ایس او پیز کی خلاف ورزی پر لاکھوں روپے کے دوکانوں کو جرمانے اور 80 سے زائد دوکانیں سیل بھی کی گئیں
اسلام آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر چیک پوسٹس قائم کی گئی ہیں جن کا کام شہریوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ بغیر ماسکس اور گلوز والے شہریوں کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنا بھی ہے۔

(جاری ہے)

شہر میں لاک ڈاؤن کے دس روز بعد ٹیکسی سروس کو اجازت ملی لیکن اس شرط پر کہ صرف دو افراد ہی گاڑی میں سفر کر سکیں گے،شہر کی مارکیٹس مکمل بند ہونے سے متوسط خاندان کے افراد سب سے ذیادہ متاثر ہوئے، ایس او پیز اور سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کی شرط پر کریانہ کی کچھ دکانیں میڈیکل اسٹوز، سبزی دودھ دہی اور پٹرول پمپس کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی جبکہ ہفتہ وار اور سستے بازروں سمیت دیگر تمام مارکیٹس انیس روز سے بند ہیں،،کورونا سے بچنا بھی ہے اور معمولات زندگی بھی چلانے ہیں شہری جائیں تو جائیں کہاں ایسے میں کچھ منافع خوروں کی بھی چاندی ہوگئی ہےسبزی،دالوں،آٹے،چینی کی من مانی قیمتیں وصول کرنے لگے کچھ دکان داروں نے خود ساختہ مہنگائی کر کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے،،
اسلام آباد میں پولیس کرونا وبا سے مقابلہ میں مصروف تو دوسری طرف ماسکس پہننے چور اور ڈکیت اپنا کام دکھانے لگے۔

گزشتہ دو ہفتوں میں دو کڑور سے زائد کی ڈکیتی اور چوری کی وارداتی رپورٹ ہوئیں،حفاظتی تدابیر اختیار کر کے شیلٹر ہومز پر مزدوروں کو کھانا تو کھلایا جاتا ہے مگر دہاڑی دار طبقے کی انفرادی قوت نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے کاروباری افراد بھی ہر وقت کورونا کو کوستے نظر آتے ہیں،انتظامیہ نے پرندوں کو خوراک اور پانی ڈالنے کے لیئے پرندوں کی دکانوں کو مخصوص اوقات میں کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے ضلعی انتظامیہ نے شہریوں کی سہولت کے لییے ڈرائی کلینر اور لانڈری کی دکانوں سے پابندی بھی اٹھا دی لیکن ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانا اور ایک دکانوں میں فقط ایک شخص کو رکھنے کی اجازت ہوگی۔

فلائٹس آپریشن معطل ہونے سے بیرون ملک سے آئے غیر ملکی بھی پھس کر رہ گئے لیکن وزارت داخلہ نے تمام غیر ملکی افراد کے ویزا میں 30 اپریل تک توسیع کردی ہے۔۔
شہریوں کے مسئلے مسائل تو اپنی جگہ لیکن اسلام آباد کی فضائی آلودگی جھٹنے سے شہر بے مثال 90 کی دہائی کی یاد دلانے لگا،،ایک جانب اسلام آباد کے دامن میں ہرے بھرے پہاڑ ہیں تو دوسری جانب بہار اپنے جوبن پر ہے لیکن افسوس سال 2020 میں اسلام آباد کی خوبصورت بہار بھی سوگوار بہار میں تبدیل ہوگئی،،شہر لاک ڈاون کی ذد میں آنے سے ہر جانب سناٹا چھایا رہتا ہے ایسے میں اچھی خبر یہ کہ اسلام آباد کے تھانوں میں ایک بھی مقدمہ گھریلوں تشدد کا درج نہ ہوا امید کی جارہی ہے کہ کورونا جیسی عالمی وبا سے نمٹنے کے بعد شہر پہلے کی طرح آباد ہوگا۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :