حضرت علی احمد صابرؒ کی دعا سے بکر ی زندہ ہوگئی

جمعہ 11 دسمبر 2020

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

ایک مرتبہ حضرت بابا فرید شکر گنجؒ نے حضرت علی احمد صابرؒ ؒکو کلیر (بھارت کے اتراکھنڈ کے رڑکی شہر سے کچھ فاصلے پر کلیر نامی مقام)جانے کا حکم دیاکیونکہ وہاں کے لوگ تکبرو غرور اور گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے ۔مرشد کے حکم پر آپؒ کلیر تشریف لے گئے تاکہ وہاں راہ ہدایت دے سکیںجب قاضی کو آپؒ کے آنے کی خبر ملی تو اسے اپنا منصب چھن جانے کا خوف پیدا ہوگیا۔

قاضی نے کلیرکے رئیس قیام الدین کو آپؒ کے بارے میںورغلایا۔ جب حضرت علی احمد صابرؒسے اس رئیس کا سامنا ہوا تو اس نے آپؒ سے کہا ''میری خوبصورت اور قدآور سبزرنگ والی بکری تین ماہ سے غائب ہے اگر بتا دیں گے تو ہم آپؒ کی بیعت کرلیں گے ۔'' آپؒ نے رئیس کی بات سن کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا''اے بکر ی کے کھانے والو،نکل آو ۔

(جاری ہے)

''آپؒ نے ابھی یہ کہا ہی تھا کہ وہ تمام لوگ وہاں حاضر ہوگئے جنھوں نے رئیس کی بکری کو پکڑا تھا۔

حضرت علی احمد صابرؒ روحانیت کی نظر سے سچ جانتے تھے انھوں نے لوگوں سے کہا''تم سب نے رئیس کی بکری پکڑ کر کھالی تھی ،اب اس کا اقرار بھی کردو۔''وہ لوگ حیران ہوگئے کہ سچ کیسے عیاں ہوگیا؟ مگر انھیں رئیس کا خوف تھا اس لئے انھوں نے اس بات سے انکارکردیا۔ آپؒ نے نرمی سے ارشاد فرمایا''بہتر یہی ہے کہ خود اپنا حال بیان کردو ،ورنہ شرمندگی اُٹھاناپڑے گی ۔

'' وہ لوگ مسلسل انکا ر کرتے رہے۔آپؒ نے رئیس سے کہا کہ اپنی بکری کو نام سے پکارو۔جیسے ہی رئیس نے اپنی بکری'' حرمنہ'' کو اس کا نام لے کر پکارا توبکری زندہ ہوگئی اور ہڑپ کرنے والے لوگوں کے پیٹ میں سے بولی''میں ان لوگوں کے پیٹ میں ہوں ، انہوں نے آدھی رات کو ذبح کرکے میرا گوشت بھون کر کھالیا تھا اورہڈیاں میری کھال میںلپیٹ کر پاس کے ایک پرانے کنویں میں پھینک دیںتھیں ۔

''رئیس نے پرانے کنویں میں کچھ مزدور بھیجے تو وہاں سے بکری کی ہڈیاں اور کھال برآمد ہوگئی ۔رئیس حضرت علی احمد صابرؒ سے متاثر ہوچکا تھاوہ بیعت ہونے کے لئے آپؒ کی جانب بڑھنے لگا توقاضی نے اسے روک کرکان میں کہا''اس کے دھوکے میں مت آنایہ بہت بڑا جادوگر معلوم ہوتا ہے ۔'' یہ سن کررئیس کا دل لمحہ بھر میں پلٹ گیا،وہ قاضی کی باتوں میں آگیا اور بولا''مجھے تو تم قُطب نہیں جادوگر لگتے ہو ۔

''یہ سن کرحضرت علی احمد صابرؒ مسکرادیے اورکہا''آج یہ سنت نبویؐ بھی ادا ہوگئی کہ مجھے جادوگر کہا گیا ۔''آپؒ نے جلالی طبیعت ہونے کے باوجود بھی نرمی اختیار کی۔
کلیر میں دولت مند امراء کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جواپنی شان و شوکت دکھانے کے لئے جمعے کی ادائیگی کے لیے ہاتھیوں پر سوار ہوکر مسجد آتے اورپھر مسجد کی اولین صفوں پر بیٹھے دیگر نمازیوں کو اٹھا کر خود بیٹھ جاتے تھے۔

کسی میں اتنی مجال نہ تھی کہ انھیں روک سکے ۔جب حضرت علی احمد صابرؒ بھیؒ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجدکی پہلی صف میں بیٹھے توآپؒ کوبھی اٹھا کر پچھلی صف میں بھیج دیا گیا۔اسی طرح متواتر دوسرے اورتیسرے جمعے بھی پہلی صف سے محرومی کا سلسلہ ہوا تو آپ ؒ نے اپنے پیر و مرشد بابافرید الدین گنج شکر ؒکو خط کے ذریعے تما م اَحوال سے آگا ہ فرمایا۔

مرشد نے جوابی خط میں لکھا''کلیر تمہاری بکری ہے تمہیں اجازت ہے دودھ پیو یا گوشت کھاو ۔'' یہ اجازت پا کر جب آپؒچوتھے جمعے مسجد کی پہلی صف میں تشریف فرماہوئے توامراء شہر نے اس مرتبہ آپؒ کو مسجد سے نکال دیا آپؒ نے غضب ناک ہو کر فرما یا'' ظالمو تم اللہ کے گھر میں بھی امتیازات پیدا کرتے ہو'' امام نے جب خطبہ ختم کیا تو آپؒ نے جلا ل میں آ کر مسجد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا''اے مسجد،امام تو اپنا کام ختم کرچکا اور تو ابھی تک کھڑی ہے، اب تو بھی سجدہ کر لے۔'' یہ فر ماتے ہی مسجد فورا ہی زمین بوس ہو گئی۔ اس کے بعد شہر میں طاعون کی وباء پھیل گئی جس نے کلیر شہر کو ویران کردیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :