جنوبی پنجاب، تیڈے شاکر کیجھائیں وعدے ہن

بدھ 3 فروری 2021

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

"ایک خبر کے مطابق پنجاب کی صوبائی کابینہ نے مظفر گڑھ کے قصبہ چوک سرور شہید (چوک منڈا) کو تحصیل کا درجہ دینے کی منظوری دے دی" پچھلے دنوں یہ خبر نظر سے گزری تو خوشی سے بڑھ کر حیرت ہوئی کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ کھیل ایک تسلسل کے ساتھ کھیلا جارہا ہے 2018 میں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جب مسّلم لیگ اپنی ساکھ بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی تو اس وقت وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب میں جو چار نئی تحصیلیں بنانے کا اعلان کیا ان میں ضلع وہاڑی سے گگو  منڈی ، ضلع بہاولنگر سے ڈاھراں ، ضلع گجرات سے جلال پور جٹاں کے ساتھ ساتھ ضلع مظفر گڑھ سے چوک سرور شہید تحصیل  بھی شامل تھی کیونکہ جنوبی پنجاب کے لیے ہونے والا ہر اعلان محض اعلان ہی ہوتا تو اس لیے بات اعلان سے آگے نہ بڑھ سکی اور پھر گزشتہ سال فروری میں وزیر اعظم عمران خان احساس پروگرام کے افتتاح کے سلسلے میں لیه تشریف لائے تو اس وقت انھوں نے لیه میں کھڑے ہو کر چوک سرور شہید کو تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا حالانکہ لیه کے لوگ چوک اعظم کو تحصیل بناۓ جانے کی خوشخبری سننے کی امید لگاۓ بیٹھے تھے  کیونکہ چوک اعظم لیه کا ایک اہم تجارتی مرکز ہے جس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے مگر تحصیل چوبارہ کا حصہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے تحصیل آفس سے متعلقہ مسائل کے حل کے لیے چوبارہ جانا پڑتا ہے جبکہ ڈسٹرکٹ سے متعلقہ مسائل کے حل کے لیے لیه آنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے چوک اعظم کے عوام کو دوہری اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ لیه اور چوبارہ کے درمیان معلق رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

خیر پھر انہی دنوں وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار مظفر گڑھ دورے پر آئے تو انھوں نے بھی چوک سرور شہید کو تحصیل بنانے کا اعلان کیا۔ یہ تمام تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے جنوبی پنجاب صوبہ ہو یا جنوبی پنجاب کے اضلاع ، تحصیلیں اور ڈویژن بنانے کا معاملہ بلاتفریق ہر حکومت بھر پور طریقے سے اعلان تو کرتی ہے مگر پھر کچھ نہیں کرتی۔
100 دنوں میں صوبہ بنانے سے لیکر صوبائی سب سیکرٹریٹ کے ٹرک کی بتی تک اور پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر سیکرٹریٹ سے لیکر چھا جانے والی مکمل خاموشی تک جنوبی پنجاب کی کہانی ہم اتنی بار دبرا چکے ہیں کہ اب ہمیں بھی شرم محسوس ہوتی ہے مگر حیرت ہے حکمرانوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا سچ تو یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ہر دور میں ہر حکومت اس طرح کی جھوٹی کہانیاں سنا کر وسیب کے عوام کو لوریاں دیتی رہی ہے چوک سرور شہید تحصیل بنانے کے اعلانات کی طرح کچھ عرصہ قبل تھل ڈویژن بنانے کا بھی بڑا رولا ڈالا گیا مسلم لیگ کے دور میں کہا گیا کہ تھل ڈویژن کا ورکنگ پلان مکمل ہوچکا ہے بس اعلان ہونا باقی ہے موجودہ حکومت نے بھی آتے ہی تھل ڈویژن کے خواب دکھانا شروع کر دئے مگر پھر جنوبی پنجاب صوبے کی طرح تھل ڈویژن بھی حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی نظر ہوگیا کیونکہ جب مقامی سیاستدان اپنے وسیب کے لیے سنجیدہ نہیں تو پھر کسی بھی حکومت کو اس سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔


حالانکہ وسیب میں نئے اضلاع اور تحصیلیں بنانا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور عوام کا درینہ مطالبہ بھی کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں کوٹ ادو اور تونسہ شریف کو ضلع اور لیه کو ڈویژن بنانے سے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ لیه کے جنوب اور مغرب میں ملحقہ تحصیلیں کوٹ ادو اور تونسہ شریف کے عوام ایک طویل عرصے سے دونوں کو ضلع بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ کوٹ ادو ، دائرہ دین پناہ ، چوک سرور شہید اور سناواں کو ملا کر ضلع بنایا جاۓ اور تونسہ شریف کو ڈی جی خان کی شمالی یونین کونسل ، تونسہ بیراج ، وہوا ، ریتڑا اور ٹرائیبل ایریا کو ملا کر ضلع بنایا جائے اور پھر مجوزہ ضلع تونسہ شریف ، کوٹ ادو، بھکر اور لیه کو ملا کر تھل ڈویژن بنایا جائے جس کا ہیڈ کوارٹر لیه کو ہونا چاہئے اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لیه اور تونسہ کے درمیان دریاۓ سندھ پر پل کی تعمیر کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور دونوں جانب اب روڈز کی تعمیر کا کام ہونا باقی ہے جس کی تکمیل کے بعد لیه اور تونسہ کے درمیان صرف 30 سے 40 منٹ کی مسافت رہ جاۓ گی اسی طرح لیه اور کوٹ ادو کے درمیان بھی ایک گھنٹے کی مسافت ہے اور اتنی ہی دوری پر بھکر واقع ہے یہ تمام علاقے قدرتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں یقیناً اگر لیه کو ڈویژن بنا دیا جائے تو اس سے لوگوں کے بہت سے مسائل اور مشکلات کم ہوجائیں گی مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح عوام کی مشکلات کم کرنے میں سنجیدہ نہیں جس کا اندازہ سیکرٹریٹ سے لگایا جاسکتا ہے جو ایک مکمل اور بااختیار صوبے سے سکڑتا سکڑتا سیکرٹریٹ تک آن پہنچا ہے مگر اس میں بھی جان نہیں ایک بے جان پتلی کی طرح ہے جس کی ڈوریاں لاہور سے ہلائی جاتی ہیں۔


حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیر اعظم آج بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ماضی میں جنوبی پنجاب کو دانستہ نظر انداز کیا گیا جنوبی پنجاب کو تعلیم ، صحت اور روزگار کے مساوی مواقع فراہم نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے یہ خطہ محرومیوں کا شکار ہے بالکل ایسے ہی انھوں نے اپنی انتخابی مہم اور صوبہ محاذ کے ساتھ معاہدے کے وقت بھی یہ بات واضح طور پر کہی تھی وہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور 100 دنوں میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے مگر اب سو دنوں کے ہزار دن ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک حکمرانوں کے وعدے پورے ہونے کو نہیں آئے۔

نہیں معلوم کے تحریک انصاف کے پانچ سال وسیب کو  یقین دہانیوں پر گزارنے پڑیں گے یا یقینی طور پر صوبے کی منزل مل پائے گی حکمرانوں کی اڑھائی سال کی کارکرگی دیکھ کر تو بات وعدوں کے گرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے
بقول شاکر شجاع آبادی
تیڈے شاکر کیجھائیں وعدے ہن
ساڈی زندگی گئی تیڈی کل نہ آئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :