سانحہ ماڈل ٹاؤن ، 7 سال انصاف محال

جمعرات 17 جون 2021

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

7 سال گزر گئے مگر شاید اس ملک میں انصاف لینے کے لیے 17 سال بھی کم ہیں اور 70 سال بھی بہت تھوڑے ہیں اور پھر اگر فریق بھی ریاست ہو اور انصاف بھی ریاست نے دینا ہو تو پھر انصاف کا یہی حشر ہوتا ہے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہوا۔ 17 جون 2014 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جب بھی تاریخ میں سیاسی انتقام اور سیاسی جرائم کی فہرست کو مرتب کیا جائے گا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک بد نما داغ کی طرح سر فہرست ہوگا۔


پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری 23 جون 2014ء  کو پاکستان آمد کا اعلان کر چکے تھے اور اس وقت کی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ ق اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت کے خلاف کسی بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اس لیے اس سے قبل 17 جون کو رات کے پچھلے پہر لاہور کے مختلف تھانوں کی پولیس نے ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر دھاوا بول دیا اور یہ موقف اپنایا کہ وہ مرکز منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر لگے ہوۓ بیرئیر ہٹانے آئے ہیں جو کہ پولیس کے مطابق غیر قانونی ہیں اور ناجائز تجاوزات کی زد میں آتے ہیں قابل غور پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں ناجائز تجاوزات کے خلاف اپنی نوعیت کا یہ پہلا اپریشن تھا جو پنجاب پولیس نے رات کو تین بجے شروع کیا۔

(جاری ہے)


بیرئیر کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے حالات کو سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ اس وقت پورا ملک دہشت گردی کے خلاف ایک خطرناک جنگ لڑ رہا تھا بم دھماکے ، خود کش حملے اور دہشت گردانہ کارروائیاں ایک معمول تھا اس جنگ میں ہم نے اپنے جوانوں اہم شخصیات معصوم بچوں سمیت بہت سی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں  پورے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور پھر کچھ ہی عرصہ قبل ڈاکٹر طاہر القادری نے خود کش حملوں خلاف 600 صفحات پر مبنی مبسوط  تاریخی فتویٰ " دہشت گردی اور فتنہ خوارج " دیا جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں دہشت گردی اور خود کش حملوں کی مزمت کی گئی جس کی وجہ سے دہشت گردوں کی طرف سے کی قسم کے رد عمل کے خدشے کے پیش نظر عدالت کے حکم پر یہ بیرئیر لگائے گئے تھے جبکہ حکومت نے خود بھی دہشت گردی  کے خطرے کے  پیش نظر مختلف حساس اور اہم مقامات پر اسی طرح کے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایات کر رکھی تھیں۔


لیکن کیونکہ حکومت کو مرکز منہاج القرآن پر کارروائی کرنے اور ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے کوئی بہانہ چاہئے تھا تو مرکزی و صوبائی حکومت کے ایما پر پنجاب پولیس کے شیروں نے بیرئیر کو جواز بنا کر دھاوا بول دیا جن میں نہ صرف کئی تھانوں کی پولیس تھی بلکہ کئی پرائیویٹ گلو بٹ بھی شامل تھے نہیں معلوم کہاں سے اور کتنے سخت آرڈر آئے تھے کہ رات کے تیسرے پہر شروع ہونے والی کارروائی سارا دن جاری رہی نہ وزیر اعلی نے کوئی نوٹس لیا نہ وزیر اعظم نے اور نہ ہی کسی عدالت کو کوئی احساس ہوا پولیس نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکر ظلم جبر اور بربریت کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے 14 معصوم لوگوں کی جان لے لی جن میں دو خواتین شامل تھیں جن میں ایک حاملہ تھیں ان خواتین کو منہ اور پیٹ میں گولیاں ماری گئیں جبکہ 100 کے قریب لوگوں کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا واحد المناک سانحہ ہے جسے پورے پاکستان میں درجن بھر نجی ٹی وی چینلز پر براہ راست دیکھا گیا پوری قوم اس کی چشم دید گواہ ہے مگر حیرت ہے آج سات سال گزر گئے سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا انصاف ملنا تو بعد کی بات ہے اس وقت کی حکومت نے  ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی جو کہ بعد ازاں آرمی چیف کی مداخلت سے درج ہوئی کیونکہ اس میں اس وقت کے وزیر اعظم ، وزیر اعلی ، وزیر اعلی کے پرنسپل سیکرٹری ، آئی جی سمیت دیگر پولیس آفسران اور بیوروکریٹ نامزد ہیں تو ایسے میں ہمارا قانون کس طرح حرکت میں آسکتا تھا جو ہمیشہ طاقتور کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔


سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پہلی جے آئی ٹی رپورٹ میں لواحقین کے عدم اعتماد کے بعد بننے والی نئی جے آئی ٹی نے تحقیقات شروع کیں تمام فریقین کے بیانات مکمل ہو چکے تھے کہ ایک نامزد ملزم  پولیس اہلکار کی درخواست پر اس جے آئی ٹی کو کام سے روک دیا گیا اب انصاف ملنا بعد کا معاملہ ہے جے آئی ٹی درست تھی یا غلط اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے مگر ہمارے عدالتی نظام کے پاس فی الحال اتنی فرصت نہیں کہ 7 سال سے انصاف راہ تکنے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لواحقین کو انصاف کی کوئی امید دلا سکے۔


مسلم لیگ نواز کے دور میں جب پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو نہ صرف تحریک انصاف کے کارکن بلکہ عمران خان خود میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے احتجاج میں شرکت کرتے رہے ہیں یہی وجہ ہے وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تو یہ امید پیدا ہوئی کہ وزیر اعظم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے  متاثریں کو انصاف دلانے کے لیے اپنی بھر پور کوشش کریں گے اور انصاف کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا نہ صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ ان میں نامزد بیورو کریٹ کو اعلی عہدوں پر ترقیاں بھی دیں گئیں اور ماڈل ٹاؤن کا کیس تین سال سے جمود کا شکار ہے جس نے تحریک انصاف سے انصاف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اسی طرح سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے بھی تین ماہ کے اندر ماڈل ٹاؤن کیس کا فیصلہ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ اعلان بھی محض اعلان ہی رہا گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ویڈیو لنک کے زریعے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کا وعدہ اس ملک کے تین بڑی شخصیات نے کیا تھا سب سے پہلا جنرل راحیل شریف نے ، دوسرا چیف جسٹس ثاقب نثار نے بسمہ بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا تھا اور تیسرا موجودہ وزیراعظم عمران خان نے ۔

اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا اس ملک میں ان تین آفسز کے علاہ کوئی بڑا آفس ہے۔۔۔؟ یقیناً یہ سوال ہماری ریاست ، ریاستی اداروں ، حکومت اور نظام انصاف کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے آخر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل کتنے طاقتور ہیں کہ سب کی آنکھیں بند اور سب کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے دور میں بھی ماڈل ٹاؤن کا انصاف نہ ہوا تو تاریخ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :