پرنٹ میڈیا vs الیکٹرانک میڈیا

جمعرات 18 جولائی 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں اردو میں ذائع ابلاغ اور انگریزی میں اسے میڈیاکہتے ہیں پرنٹ میڈیا میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن کی مدد سے ہم لکھ کر بات چیت کرتے ہیں سب سے اہم ذریعہ اظہار ہمیشہ کتاب ہی کو تسلیم کیا جاتا ہے یہ ذرائع ابلاغ کی قدیم تر ین شکل ہے اس کی ابتداالہامی صحائف سے ہوتی ہے ۔


اخبارات کی چھپائی کا کام بھی چھاپے خانے کی ایجاد کے ساتھ ہی ہوگیا تھا رسائل کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی چھاپے خانے کی ہے رسائل ہر دور میں ، دنیا کے ہر خطے میں چھپتے رہے ہیں نئے عہد کے تقاضوں نے بظاہر اخبارات ،رسائل و جرائد کی اہمیت کم کرنے والے حالات پیدا کر رکھے ہیں امریکہ اور یورپ کے بے شمار اخبارات وجرائد کی طباعت (پرنٹنگ) بند کرکے انہیں صرف اآن لائن اشاعت تک محدود کردیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

الیکٹرا نک و سوشل میڈیا کی یلغار سے بھی ایسا محسوس ہونے لگا کہ پرنٹ میڈیا کی ضرورت و اہمیت شاید باقی نہ رہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی شدت پکڑتا گیا کہ معیاری ، رسائل و جرائد کی اس قدر کثیرتعداد میں اشاعت مختلف موضوعات اور مختلف مقاصد کی وجہ سے ہے ،اسی طرح تقریباً ہر جریدے کی رسائی ایک مخصوص حلقے تک رہتی ہے، اور ہر جریدہ اپنی حد تک کسی نہ کسی حلقے کی افادیت کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے ۔

فطرت سی بات ہے نئی ایجاد فوری طور پر انسانی ذہن کو متوجہ کر لیتی ہے ۔پرنٹ میڈیا کی اہمیت عہد حاضر کی جدید ایجادات میں بھی کم نہیں ہو سکی ، آج بھی کسی کیلئے اگر خبر کی سچائی کو پرکھنا مقصود ہے تووہ پرنٹ میڈیا کی طرف فوری رجوح کرتا ہے ۔پرنٹ میڈیا کتاب کی طرح اپنے وجود کو دستاویز کی شکل میں تادیر محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہزاروں سال سے تسلسل کیساتھ نبھا رہا ہے ۔

سچے اور کھرے صحافیوں کے پرنٹ میڈیا کیساتھ وابستگی اور ان کی انسان دوستی پر مبنی سوچ ہی اخبارات میں سب سے نمایاں خبر کو لیڈ سٹوری کہا جاتا ہے اور تمام اخبارات کے نیوز رومز میں بیٹھے مختلف نظریات ، علوم ۔ فکر ،علاقے اور مذاہب کے پیروکار اکثر ایک ہی بڑے واقعہ کو لیڈ کے طور پر نمایاں لگاتے ہیں ،یہاں انکے ذہن ایک طرح سے کیسے سوچنے لگتے ہیں ، ہر چیز کی تفریق اور امتیاز ختم ہوجاتا ہے صرف انسانیت کا احترام ہی مقدم ہوتا ہے ۔

اسکے بر عکس الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہر کسی کیلئے بڑا واقعہ ان کے اپنے علم ،حالات اور ماحول کی مطابقت سے ہوتا ہے ۔ اخبار نویس کی افادیت اسی سوچ پر اسے دوسروں سے ممتاز کردیتی ہے۔ پاکستان میں اردو صحافت نے بام عروج دیکھا ہے ، پرنٹ میڈیا کے ذریعے معیاری تعلیم کے ساتھ ادب کے شاہکار فن پارے بھی تخلیق ہوئے جو آج بھی لکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہیں ۔

ارود کا پہلا کالم مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار میں افکار و حوادت کے نام سے چھپنے لگا جیسے عبدالمجید سالک لکھتے تھے اور پھر تو بڑے اخبارات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو مولانا عبد الماجد دریاآبادی چراغ حسن حسرت ،محمود نظامی ، احمد ندیم قاسمی اور سر سید احمد خان سے ہوتا ہوا نذیر ناجی ،مجیب الرحمن شامی ،عباس اطہر ،منو بھائی ،جاوید چوہدری،وسعت اللہ خان،سید اعجاز حسین گیلانی،سلمان احمد قریشی، تک چلا جاتا ہے اکثر ذہنوں میں یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے اس وسیع و عریض جال میں جس نے گھر گھر اور ہر فرد کی جیب میں جگہ بنالی ہے اور لوگوں کے دماغ کو اس مضبوطی سے جکڑ لیا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفقود ہو چکی ہے ایسے موقع پر پرنٹ کی حد تک کوئی کوشش کرنا بے سود اور کار گر معلوم نہیں ہوتا ہے ؟۔

یہ سوچ کر کہ اب پرنٹ میڈیا ، یا اس کا دور باقی نہیں رہا ، اب صرف وہی کچھ پڑھا جاتا اور سمجھا جاتا ہے جو ٹی وی ، موبائل ،ریڈیو یا سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتا ہے ،اور کچھ تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اب الیکٹرانک میڈیا کی بڑی مچھلی پرنٹ میڈیا کی چھوٹی کو کھالے گی ۔ اس روش کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دور حاضر میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت اور اس کی افادیت و وسعت سے ناواقف ہیں اور صرف اسی خول میں گھوم رہے ہیں جو ہمارے سامنے ہے ،جبکہ حقیقی صورت حال سے یکسر ناواقف ہیں کیونکہ عالمی میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس وقت بھی پرنٹ میڈیا پر مشتمل ہیں بلکہ اسی کے ذریعے وہ اپنے بہت سے اداروں اور مختلف نظریا ت و تحریکات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں جس کی پشت پناہی بڑی بڑی نیوز ایجنسیاں کر رہی ہوتی ہیں ۔

نیشنل ریڈر شپ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق نیوز چینلز کے بعد پرنٹ میڈیا میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایک سروے رپورٹ کے مطابق جہاں تیرہ کروڑلوگ پرنٹ میڈیا کو اہمیت دیتے تھے،وہاں اب یہ تعداد پندرہ کروڑساٹھ لاکھ کے اعداد شمار کو پہنچ چکی ہے اعدادو شمار کی معروف و یب سائٹ https://www.statista.com/ کی ایک سروے رپورٹ مطابق گزشتہ سال تک صرف امریکہ میں دوہزار اکسٹھ سائل و جرائد کا اضافہ ہوا ہے جو قارئین کی دلچسپی اور گوش توجہ کی علامت ہے اور پڑھنے والوں میں بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے۔

جو ان کا مطالعہ آن لائن کرتے ہیں دوسری طرف پاکستان میں پرنٹ میڈیا کی سچائی سے خوف زادہ اشرافیہ نے اس کی اہمیت کم کرانے کے لئے شعوری کوشش کی ہے جو تا حال ان کے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی ۔آج ہم جس مقام پر آگئے ہیں ہمیں پرنٹ میڈیا کی ساکھ ہی نہیں وجود کو ترو تازہ رکھنے کے لئے بھر پور کردار نبھانا ہوگا جس کے لئے اخبارات کے ضلعی ،تحصیل اور ٹااوٴن کی سطح پر نامہ نگاری کے فرائض دینے والے صحافیوں کی ذمے داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔

مصدقہ خبروں کی بر وقت ترسیل کیلئے دستیاب جدید سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہترین اقدامات کے سبب اخبارات کے ایڈیشنز کی وقت پر تیاری کے مراحل خوبی کیساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں گے۔ اخبارات کی دیہات کے لوگوں تک علی الصبح رسائی سے پرنٹ میڈیا کی گرتی ساکھ بچائی جاسکتی ہے ۔پرنٹ میڈیا کی اہمیت کسی زمانے میں کم نہیں ہو سکتی اس کے ترسیل کے ؛ٹولز؛ تبدیل ہوسکتے ہیں آئندہ شائد اخبارات موبائل فون پر منتقل ہو جائیں مگر اس کی طباعت ( پرنٹنگ)کے مراحل یکسر پھر بھی نہیں ہونگے کیونکہ صحا فت کے زندہ رکھنے میں آئندہ بھی پرنٹ میڈیا دستاویزی صور ت اختیارکرکے اپنا اہم ترین کردار نبھاتا رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :