ویلنٹائن ڈے محبت یا بے حیائی کی لازول داستان

جمعہ 14 فروری 2020

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

ویلنٹائن ڈے یعنی 14فروری کا دن جیسے محبت کرنیوالوں کا عالمی دن بھی کہا جاتا ہے ۔ اس دن کو مغربی اور سیکولر ممالک میں باقاعدہ ایک پسندیدہ تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ میڈیا کی بے پنا ہ تشہیر اور اس دن کے حوالہ سے مختلف پروگرام کی بدولت پاکستان میں بھی گزشتہ چند سالوں سے اس مغربی روشِ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس روز خاص طور پر سرخ لباس پہنتے ہیں ویلنٹائن کارڈ خصوصاً سرخ گلاب ، سرخ بھالو ،مصنوعی سرخ دل،سرخ غبارے بلکہ ہر طرف سرخی چھائی ہوتی ہیں دوکانیں، اسٹالز، ریڑھیاں بلاشبہ اگر یہ بھی کہا جائے کہ ہر شے پر سرخی کا غلبہ ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا اور تقریبًا ہر کالج ،یونیورسٹی پارکوں،گلی، محلوں مختلف سیروتفریح کے مقامات پر سر عام ہلڑباز،لفنگے نوجوان لڑکے ،لڑکیاں بے حیائی کی تمام تر حدیں پارکرتے ہوئے ایک دوسرے کو پھول اور تحائف دے کر اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں اورہر اس کام کو فروغ دیتے ہیں جس کی اسلام میں ممانت ہے ہر سینما کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ اس دن کی خوشی میںآ ج چار شو ہو گئے اس کے جشن کو دوبالا کرنے کے لئے سینماوٴں میں ممنوع فلمیں بھی چلائی جاتی ہیں ،تھیٹروں میں ڈراموں کے خصوصی شو ہوتے ہیں ، مجروں اور فحاش گانوں پر ٹھمکے لگائے جاتے ہیں کئی کئی دن پہلے ہوٹل اور ان میں پروگرام کے لیے رقاساوٴں کو بک کیا جاتا ہے بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب وشباب کے خصوصی پیکچزمتعارف کروائے جاتے ہیں بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی بعض تو بڑے لوگ اپنی تحسین اور ہندستان ، سے بدلہ لینے کے لئے وہاں سے اداکاراوٴں ، ماڈلوں اور پیشہ ور عورتوں کو پاکستان بلواکر اس دن کے جشن کو چار چاند لگاتے ہوئے اس دن کے نام پر بے حیائی،بے شرمی،بد تمیزی ،بے ادبی،بے غیرتی،بے لحاظی،کمینگی،ذلالت،اوچھاپن ،چھچھوراپن ،کم ظرفی ، شاہد یہ القاب بھی ان کے لیے ناکافی ہیں جو ان ساری صورت حال کی شناسائی کے باوجود بھی جہالت مفرط کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالتے ہیں ۔

(جاری ہے)

بلا شبہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ محبت روشنی کی وہ کرن کا نام ہے جو اپنے اندر بے شمار رنگ سمیٹے ہوتی ہے اور ان رنگوں میں بے شمار جذبے پروان چڑھتے ہیں شخصیت میں بہتری اور پختگی پیدا ہوتی ہے ،شخصیت کی تکمیل جتنی اس جذبے سے ہوتی ہے اتنی کسی اور جذبے سے نہیں۔

پہلے تو انسان سچے دل سے صرف محبت کرتا تھا لیکن اب اسے محبت کے نام پر اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ سچی محبت کرنی ہے یا دوسرے کام یعنی دنیاوی۔لیکن 17/18،برس کا نوجوان تو یقیناًیہ ہی کہے گا کہ دونوں کام ایک ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کا مواقف جو بھی ہو جیسا بھی ہو پر تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ، نا ہی محبت بچتی ہے اور ناہی کام ۔

کچھ لوگوں کا تویہ بھی ماننا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے اس لیے محبت کے پوجاری ان غلطیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے جو ہر لمحہ ان سے سرزد ہوتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹی چینل ،پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا بھی لوگوں کو اس بارے اگاہی دینے کی بجائے اس تہوار کو پرموٹ کرنے میں مصرف عمل ہیں کچھ لوگوں کا نظریہ تو ایسابھی ہے کہ اس دن محبت کا اظہار کیا جاتا ہے یعنی یہ دن والدین ،بیوی ،بچوں ، اور اپنے پیاروں سے اظہار محبت کے لیے ماخوذکیا گیا ہے پر میرا سوال ان سے یہ ہیں کہ محبت کے اظہار کیلئے صرف ایک ہی دن کیونکہ بلکہ ان رشتوں سے تو روزانہ کی بنیادوں پر اظہار کرنا چاہیے وہ اس لئے کہ انسان کو معاشرتی زندگی میں مختلف رشتوں کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔

رشتوں کی یہ مالا محبت کے دھاگو ں میں پروئی ہوتی ہے ۔اسی محبت کی وجہ سے رشتوں میں قرب وبعد کا تعیّن ہوتا ہے ۔ ماں باب کا تو ہر لمحہ اولاد کی محبت کے لئے وقف ہوتا ہے ۔ محبت کی بنیاد پرایک بیٹی اپنے باپ کا جگرگوشہ ہوتی ہے ،بہن بھائی محبت کے لازول رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں ۔میاں بیوی کی محبت حسن فطرت کا شاہکار ہوتی ہے اور ان رشتوں سے اظہار محبت کے لئے ایک دن خاص نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ ہر لمحہ اپنے تحفظ و مقام کے لئے اہم ہوتا ہے ۔

ہر لمحہ ہر پل سب سے پہلی اور سب سے زیادہ اور خالص ترین محبت تو ہمارا رب ہی ہم سے کرتا ہے جو ہر وقت ہم پر اپنی رحمتوں ، محبتوں ،نوازش ہائے بیجا کا 24 گھنٹے نازول فرماتا ہے اور بدلے میں ہم رب کعبہ کی محبتوں کا جواب اس کی نافرمانیاں ، اور شرک کر کے دیتے ہیں ایسے غیر مہذب تہوار کسی بھی مذہب ،تہذیب کی روایات و تعلیمات کی ترجمانی نہیں کرتے ۔

آپ خود ہی اپنے اردگرد کے ماحول میں نظر فرمائے تو آپ کو اندازہ ہو جا ئے گا کہ ہم نے ویلنٹائن ڈے پر لائٹوں ،بڑے بڑے ڈیکوں اور ناچ گانے کی محفلوں پر غریب اور مقروض قوم نے کتنی فیاضی اور زندہ دلی سے مال اڑایاہے۔ہم ایسے معاشی اور بے حیائی پر مبنی تہوار وں کے نقشے قدم پر چل کرسوائے ، اسلامی ثقافت ، اسلامی تعلیمات ، اور اپنی راویات سے دوری کے اورکچھ نہیں پا سکتے ہیں جس کا نتیجہ ذلت ، رسوائی،گمرائی کے علاوہ کچھ نہیں اور ہماری نوجوان نسل اس تہوار کی اصل حقیقت و مقاصد جانے بغیرہی اس کو پرجوش طریقے سے منانے اور اس کا دفاع کرنے میں مصروف عمل نظرآتے ہیں ہماری بد نصیبی ہے کہ ہر جگہ مغربی اور اس کی بد بخت تہذیب کی آندھی پنجے گاڑے ہوئے ہے اہل شرف جہاں ان کی تہذیب،روایات ،اور ثقافت کو اپنانے میں ہی اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :