تہذیبوں کا تصادم ‘تیسری عالمی جنگ کی تیاریاں

پیر 23 نومبر 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

کچھ احباب نے تحفظات کا اظہار کیا میرے گزشتہ کالم”دہشت گردی‘بنیاد اور وجوہات“پرمیرے بعض انتہائی عزیزدوست یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ تہذیبوں کی جنگ ہے 1992میں ایک امریکی دانشور Samuel Phillips Huntingtonنے اپنے لیکچرکے دوران تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا ان سے پہلے Albert Camus نے1946جبکہ Bernard Lewis نے1990میں اس موضوع پر مظامین لکھے بلکہ1926میں لکھے گئے ایک غیرمعروف مصنف کی کتاب میں اسے موضوع بحث بنایا گیا ہے 9/11کے بعد جب بش جونیئریہ کہہ رہا تھا کہ وہ ہمارا رہن سہن تبدیل کرنا چاہتے ہیں ‘وہ ہمارے پورے نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو داراصل وہ مستقبل کے ایجنڈے کا اعلان کررہا تھا جس کے تحت پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب کو مسلط کرنا تھا یعنی ایک کھلی تہذیبی جنگ جس میں دوسرے فریق کی جانب سے ردعمل سامنے آنے کی صورت میں دونوں تہذیبوں میں تصادم لازم تھاجس کے اثرات آج آپ اپنے گردوپیش میں محسوس کررہے ہیں Samuel Phillips Huntington کے نظریے اور اس موضوع میں بعد میں لکھی گئی ان کی کتاب کو اس لیے شہرت ملی کہ انہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے دنیا کو اس تھیوری کی وجوہات سے آگاہ کیا اپنی اس کتاب میں انہوں نے سرمایہ درانہ فری کارکیٹ‘انسانی حقوق‘لبرل جمہوریت کوخاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے کہ ان کے نزدیک یہی وہ عوامل ہیں جو دنیا کو تبدل کرنے جارہے ہیں اپنی کتاب میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے
"It is my hypothesis that the fundamental source of conflict in this new world will not be primarily ideological or primarily economic.

The great divisions among humankind and the dominating source of conflict will be cultural. Nation states will remain the most powerful actors in world affairs, but the principal conflicts of global politics will occur between nations and groups of different civilizations. The clash of civilizations will dominate global politics. The fault lines between civilizations will be the battle lines of the future."
کہا گیا9/11کے بعد دنیا بدل گئی یہ بات درست ہے کہ دنیا کو ”بدل“دیاگیاظالم اور مظلوم کے درمیان تمیزختم ہوگئی بنیادی وجہ مغرب کا ٹوٹتا ہوااقتصادی جال تھا جو اس نے دنیا کے غریب ممالک کے گرد بن رکھا تھا اب معاملہ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“اب وہ پوری دنیا کو ساتھ لیکر ڈوبنا چاہتے ہیں ‘رہا معاملہ اسلامی دنیا کا تو اپنے دانشور دوستوں کو یاد دلاتا چلوں کہ دنیا کی حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھ سے چھینی تھی مغرب میں تو دونوں کے درمیان کشیدگی کا ہونا ایک فطری بات ہے چونکہ دنیا کی قیادت مغرب کے ہاتھ میں تھی تو یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس گشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرتامگر ایسا نہیں ہوا الٹا پہلے کالونین ازم کے دوران مسلمان خطوں کے وسائل کو لوٹا گیااور لوٹ مار کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے دوسری جانب اپنی ہی قوموں کو ڈرا کر رکھنے کے لیے مختلف بت تراشے گئے اور انہیں خونخوار ولن کے طور پر پیش کیا گیا دوسری جنگ عظیم میں ہٹلراور اس کے بعد روس کے ”ولن“بنا کر پیش کیا گیا دفاعی اخراجات کے نام پر اپنے ہی لوگوں پر بھاری ٹیکس عائد کیئے گئے ‘کارپوریشنزاور سرمایہ درانہ نظام کو کھلی چھٹی دی گئی جس سے دن بدن امیر اور غریب میں فرق بڑھتا چلاگیا اور آج دنیا کی بڑی آبادی غربت کا شکار ہے بلاتقریق مذہب‘رنگ ونسل‘ورلڈٹریڈآڈر تیسری دنیاکے غریب ممالک کے لیے کھودی گئی قبرتھی جس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے امریکہ اور یورپ کے امیرممالک گرے ‘ہم جیسے تو ڈوبے ہی بچا ان کا بھی کچھ نہیں کہ امریکہ جیسا بڑا ملک محض ایک منڈی بن کر رہ گیا ہے اور اس کی اپنی پیدوار نہ ہونے کے برابر ہے امریکہ کے اندر MEAD IN USA تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے ‘ایک عام امریکی اپنی پسند کی جماعت یا امیدوار کو زیادہ سے زیادہ 10/20ڈالرچندہ ہی دے پاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایک کارپوریشنزبلین ز آف ڈالرکی انوسٹیمنٹ کرتی ہیں اب کانگرس‘سینٹ یا وائٹ ہاؤس 10/20ڈالرچندہ دینے والے عام امریکی کے مفادات کا تحفظ کرئے گا یا بلین ز ڈالر”چندہ“دینے والی کارپوریشنزکا؟اب اس سارے معاملے کا تہذیبوں کے تصادم سے کیا لینا دینا تو عرض کرتا چلوں کہ کسی نہ کسی مذہبی اساس سے جڑارہنا انسانی فطرت ہے حتی کہ آج جو خود کو لادین کہتے ہیں بنیادی طور پر وہ بھی ایک نظریے سے جڑے ہوئے ہیں Atheistism کیا ہے؟ ایک ایسی آئیڈلوجی جو یہ بنیادی طور پر ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ خدا کو نہیں مانتے بلکہ کائنات کی تخلیق ‘زندگی اور موت ودیگر امور پر ایک مخصوص آئیڈلوجی رکھتے ہیں یہ میں نہیں دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والے کئی سکالرزAtheistism کو ایک مذہب یا آڈیالوجی قراردے چکے ہیں ‘انسان کو اپنے ہراچھے یا برے فعل کے ارتکاب کے لیے جوازچاہیے ہوتا ہے‘حکومتیں اپنے شہریوں کو مطمئن کرنے کے لیے جوازاور وجوہات پیدا کرتے ہیں کہ وہ جو کرنے جارہے ہیں یا کررہے ہیں وہ ناگزیرکیوں ہے‘دراصل ایک مخصوص طبقہ ہوتا ہے جو اپنے مفادات اور ہوس کو پورا کرنے کے لیے کھیل رچاتا ہے صلیبی جنگیں ‘پہلی جنگ عظیم‘دوسری جنگ عظیم اور سردجنگ کا زمانہ اب سرد جنگ کا زمانہ ختم ہوا تو کوئی نیا ”دشمن“درکار تھا سو اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا کہ تاریخی طور پر بھی اسلام ‘یہودیت اور عیسائیت کے درمیان تنازعات رہے ہیں یہ ”دشمن“اپنے اندرونی خلفشار‘تقسیم‘گروہ بندی وغیرہ سے کمزور اور آسان شکار تھا‘اب ایک طرف عیسائیت دوسری طرف اسلام‘دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ایک جنگ شروع کی گئی جس سے دوہرا فائدہ حاصل ہونا تھا کہ ایک طرف تیل کی دولت سے مالامال مشرق وسطی کو لوٹا جائے اور دوسری جانب اس نئے دشمن کو ایک خون آشام درندہ بنا کر کمزوردل ودماغ رکھنے والے اہل مغرب کو دھمکایا جائے‘القاعدہ کی تخلیق اور پرورش ہوئی اس ”پراڈاکٹ“کی خوب تشہیرکی گئی چونکہ ہر ”پراڈکٹ“کی ایک عمرہوتی ہے لوگ اکتا جاتے ہیں سو جب لوگ اکتانے لگے ‘اور بیگار پر آئے ”ساتھی“عراق کے صحراؤں میں اکیلا چھوڑ چھوڑکرجانے لگے تو منصوبہ سازوں نے ایک نیا پراڈکٹ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا اب کی بار ملک شام کا انتخاب ہوا ”داعش“کے نام سے اس پراڈاکٹ کی بڑی دھوم دھام سے لانچنگ کی گئی “اب یہ کوئی رازنہیں رہا کہ 9/11سے لیکر اب تک پیش آنے والے بیشتر”سانحات“کے سکرپٹ رائٹراور تھے اور انہیں عملی جامہ پہنانے والے اور 9/11پر اب تک بہت ساری فلمیں اور ڈاکومنٹری ز آچکی ہیں ‘بہت سی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں جن میں کئی سابق اعلی امریکہ عہدیداروں نے لکھی ہیں اور بہت سارے امریکی شہری بھی اسے شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے لگے ‘ابھی حال میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی ریس میں شامل ڈونلڈٹرمپ سمیت کئی اہم راہنماؤں کی جانب سے مطالبہ سامنے آچکا ہے کہ امریکہ شام سے آنے والے مہاجرین میں سے صرف شامی عیسائیوں اور دیگر غیرمسلم مہاجرین کو ہی قبول کرئے یہ مذہبی تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟روسی صدرپوٹن نے جب یہ انکشاف کیا کہ آئی ایس آئی ایس یا داعش کو دنیا کے 40ممالک سے فنڈنگ ہورہی ہے جن میں جی ایٹ کے رکن ممالک بھی شامل ہیں “تو پوری دنیا جیسے سکتے میں آگئی زبانیں گنگ ہوگئیں ‘روس شام میں فضائی حملے کرتا ہے امریکہ کہتا ہے کہ روس نے اس کے اتحادیوں پر حملے کیئے ہیں اور جب امریکہ حملے کرتا ہے تو روس کی جانب سے یہی بیان آتا ہے دنیا کوتو بتایا جائے کہ جناب آپ دونوں بڑی طاقتوں کے اتحادی کون کون ہیں ؟شام میں عام شہری تو اب شاید ہی بچے ہوں سب کے سب نکل چکے اپنے گھربار چھوڑکراب زمین پر یا تو صدراسدکی قیادت میں شامی فوجیں ہیں یا پھر آئی ایس آئی ایس جیسے گروپ اور یہ انفارمیشن مجھ جیسے معمولی صحافی کی نہیں آپ کے طرم خان میڈیا کی ہے‘ طاقت‘اقتداراور وسائل بڑی ظالم چیزہے جس کے لیے خونی رشتوں تک کو نہیں بخشا گیادنیا گواہ ہے کئی بادشاہ اپنے بھائیوں کی لاشوں پر تحت نشین ہوئے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیربڑا نیک دل باشادہ گزرا ہے مگر اقتدار کے لیے اس نے اپنے باپ شاہ جہان کو اس کی موت تک آگرہ کے قلعے میں نظربند رکھا ہندوستان میں موریا تہذیب کے اہم ترین حکمران اشوکا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اقتدار کے لیے اس نے اپنے تمام بھائیوں جن کی تعداد بعض مورخین90کے قریب بتاتے ہیں انہیں قتل کروادیا حتی کہ اس نے اپنے خاندان میں کسی بھی ایسے مرد کو زندہ نہیں رہنے دیا تھا جو کہ اس کی طاقت کو چیلنج کرسکتا‘مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تاریخ ہزاروں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے چونکہ ہم اب ”مہذب“ہوگئے ہیں لہذا اب ”کاروائی“بھی مہذب اندازمیں ڈالی جاتی ہے اورنگ زیب عالمگیراگر عقل مند ہوتا تو کوئی ”القاعدہ“ یا ”داعش“بناکر نہ صرف اپنے راستے کا ”پتھر“ہٹا لیتا بلکہ ”یتیم“بن کرعوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹ لیتا کہ دیکھو یار کتنا ظلم ہوا ہے بیچارے کے باپ کو ”دہشت گردوں“نے خودکش حملہ کرکے مار ڈالا‘اگر زمانے میں فیس بک ہوتی تو وہ کیا کہتے ہیں اسے ڈی ‘پی یا آئی ڈی پی جو بھی بلا ہے وہ لوگ اسے تبدیل کرکے اس سے یکجہتی کا اظہار بھی کرتے‘میں جس دین کا پیروکار ہوں وہ ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتا ہے میں بے حد رنجیدہ ہوں بے گناہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر میں امید رکھتا ہوں کہ میرے عزیزدوستوں کو اٹھائے گئے نکات کا جواب مل گیا ہوگا‘پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ یہ رہا ہے کہ ہم دوآئیڈیالوجی زکے ساتھ چلنا چاہتے ہیں ہم اسلام بھی چاہتے ہیں اور لبرل جمہوریت بھی مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے ‘ہمیں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ اسلام اور لبرل جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں ‘لبرل جمہوریت سرمایہ درانہ نظام کا بغل بچہ ہے سو یہ کسی بھی صورت انسایت دوست نہیں ہوسکتا یہ ایک خونخوار درندہ ہے جو اپنے پرائے کی پہچان نہیں کرتا بلکہ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے اگر اسے پوری دنیا کو بھی تباہ کرنا پڑے تو یہ گریزنہیں کرئے گا‘اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کوئی نئی چیزنہیں ہے اور مذہب ہی ایسی چیزہے جو اپنے ماننے والوں کو ”دشمن“کے خلاف جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ جان ‘مال کے ساتھ ”مشترکہ دشمن“کے خلاف متحدہ ہوجائیں ‘فائدہ کل بھی ایک چھوٹی سی اقلیت کا تھا اور آج بھی----اور اگر اس نے فائدے میں ہی رہنا ہے تو نفرتیں اور جنگیں لازم ہیں ‘نون لیگی دوستوں سے معذرت کے ساتھ جس طرح شریف بردران بلکہ خاندان کی” بقاء اور مستقبل “کے لیے ڈزنی لینڈ‘اورنج ٹرین‘میٹروبس وغیرہ ضروری ہیں اسی طرح ان عالمی ”خاندان“کے لیے انسانوں میں نفرت‘قتل وغارت گری اور جنگیں لازم ہیں ‘آخری گذارش اگر اہل مغرب اور دیگر فریقین ایک بڑی تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں نفرت پھیلانے کے لیے مذہب کے استعمال کو ترک کرکے برابری کی سطح پر معاملات کو طے کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو تیسری عالمی جنگ زیادہ دور نہیں�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :