صحافتی اقدار

ہفتہ 30 مارچ 2019

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

برسوں گزرگئے ”جدید صحافت“لکھے ‘پرانی فائلزکی چھانٹی کرتے مسودہ سامنے آگیا ”جدیدصحافت“بنیادی طور پر بی اے طالب علموں کی نصابی کتاب کے طور پر مرتب کی گئی تھی نصابی کتب لکھنے والے کو نصاب کے اندر رہنا ہوتا ہے لہذا سارے نصابی مصنفین کی طرح ہم نے بھی مکھی پر مکھی دے ماری-آج برسوں بعد جب مسودہ سامنے آیا ہے تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے صحافت کے طالب علموں کے لیے ازسرنو عام فہم اندازاور زبان میں لکھا جائے اور نصاب کی پابندیوں سے آزاد ایسی کتاب جس میں 23/24سالہ صحافتی زندگی کے ذاتی تجربات ومشاہدات کے علاوہ اہل علم و دانش ‘ ساتھی صحافیوں کے یاداشتوں سے بھی استفادہ کیا جائے -مشاورت کے لیے بھائی بلال ڈوگر کو فون کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ تم اسے مضامین کی شکل میں مرتب کرو کہ آج کل نہ کوئی کتاب خریدتا ہے نہ پڑھتا ہے جب سمجھو کہ کتاب کا مسودہ مکمل ہوگیا ہے تو اسے چھاپ لیں گے - ہمیں مشورہ اس لیے بھا گیا کہ اس طریقے سے پرانے مسودے کو دور جدید کے تقاضوں میں ڈھالنے اور میڈیا میں آنے والی نئی جہتوں کو شامل کرنے کا موقع ملے گا اس سلسلہ کا پہلا مضمون پیش خدمت ہے ادب وصحافت کا ادنی طالب علم ہوں دوستوں اور اپنے پڑھنے والوں سے استدعا ہے کہ جہاں کہیں غلط پائیں براہ کرم نشاندہی فرماکر راہنمائی ضرور کریں-صحافی کے لیے لازم ہے کہ وہ اس بات کو سمجھے کہ خبر کے لیے واقعات کے درست بیان کی کیا اہمیت ہے؟ ایک صحافی کا اپنے پڑھنے سننے اور دیکھنے والوں سے اعتماد کا ایک رشتہ ہوتا ہے جس کے بنیادی اصولوں میں سرفہرست صحافی کے طور پر واقعات کا درست بیان آپ کی ساکھ کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے اگر آپ کے پڑھنے، سننے یا دیکھنے والے آپ پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ آپ حقائق کو ان تک درست پہنچائیں گے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کم سے کم کامیابی بھی حاصل نہیں کی۔

(جاری ہے)

صحافی کا اپنے پڑھنے، سننے یا دیکھنے والوں کے ساتھ ایک خاموش معاہدہ ہوتا ہے کہ آپ ان چیزوں کی کھوج اور چھان بین کریں گے جن کی کھوج اور چھان بین کرنے کا ان کے پاس یا تو وقت نہیں یا وہ ان تک پہنچ نہیں پاتے یا ان میں اس کام کا میلان نہیں ہے اس لیے وہ آپ پر انحصار کرتے ہیں کہ ان چیزوں کی سچائی اور حقیقت جان لینے کے بعد آپ اسے ان تک پہنچائیں گے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ پر بھروسہ کریں کہ آپ نے یہ تصدیق کر لی ہے کہ نہ صرف الگ الگ حقائق درست ہیں بلکہ آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے تو آپ اپنی خبر کے لیے ٹھوس شواہد کو جمع کریں کیونکہ شواہد میں گڑبڑہونے کی صورت میں تمام ذمہ داری آپ کی ہے-صحافی کے لیے دوسرا اور اہم اصول الفاظ کا چناؤ اور زبان پر دسترس ہونا لازم ہے لہذا خبر میں زبان کا بہت خیال کرنا چاہیے استاد محترم عباس اطہر مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ آپ کی خبر پی ایچ ڈی سے لے کر فٹ پاتھ پر بیٹھے خوانچہ فروش نے پڑھنا ہوتی ہے لہذا الفاظ کے چناؤ میں ثقیل زبان کی بجائے عام فہم زبان استعمال کی جائے۔

زبان کا ذکرآیا تو آج کل زبان کی جو درگت بنائی جارہی ہے اس پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کرونگا-مدتوں پہلے ہمیں ایک اہل علم دوست نے انتہائی صائب مشورہ دیا کہ عوام الناس کے پڑھنے کے لئے لکھ رہے ہو تو عوام الناس کی زبان میں ہی لکھنا، دہائیوں قبل کی اردو زبان کے مشکل اور بھاری بھرکم الفاظ لکھ کر عوام الناس کو گمراہ و بددل کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آسان اور آج کل کی مروجہ اردو زبان میں ہی مضامین لکھے جائیں تاکہ پڑھنے میں دقت نہ ہو، مگر پھر بھی کبھی کبھار دو چار الفاظ ایسے آ جاتے ہیں جو دوستوں کو قدرے مشکل لگتے ہیں۔ہمارے زمانہ طالب علمی میں ایک صاحب مشکل اردو لکھنے کے حوالے سے مشہور تھے ان کو پڑھتے ایسا لگتا کہ فارسی و عربی زبانوں کے دقیق الفاظ و تراکیب کے جائز و ناجائز ملاپ سے تخلیق شدہ کوئی تیسری جنس پڑھ رہے ہیںآ ج کل بھی کچھ خواتین وحضرات مشکل اردو میں لکھ کر ہماری اردو کی صلاحیتوں کی کم مائیگی کا احساس وقتاً فوقتاً دلاتے رہتے ہیں چنانچہ ہم نے بھی سوچا کہ اپنی مشکل اردو کے تخیل کے بہاؤ کا دھارا زبردستی کی مشکل اردو لکھنے والوں کی فہرست کے نچلے درجوں کی طرف پھیر دیں کہ ہم سے شکم میں شکوہ دبا کر رکھا نہیں جاتا۔

مشکل اردو میں لکھنا اردو ادب کے تہذیبی خزینے کے اس رویے سے متعلق ہے جس میں انشاپردازی کا تخلیقی عمل ادبی جمود کا شکار ہوتا ہے جس کا بظاہر نتیجہ اس مشکل تحریر کی صورت سامنے آتا ہے جس کو پڑھ کر لغت تو ڈھونڈنی پڑتی ہے مگر مقصدیت کہیں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ بھاری بھرکم الفاظ میں لکھی گئی تحریر اس فربہ شخص کی مانند ہے جس کے ڈیل و ڈول کی وجہ سے اسے رسہ کشی میں سب سے آخر میں رسہ باندھ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اس کے جسمی پھیلاؤ کو ہی جیت کے لئے آلہ کار سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ تحریر کے اسلوب کی انفرادیت، جملوں کی مربوطی اور خیالات کی ندرت جیسی اہم ترین ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

مشکل الفاظ لکھنے میں مصنف کی اپنی ذکاوت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اس کا نقطئہ ارتکاز صرف اپنی خود پسندی میں شوخی مارنا ہوتا ہے اور بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق اِدھر ادھر سے الفاظ لے کر اور انہیں جملوں میں پرو کر اپنی خیالی ڑرف بیانی کی طرف توجہ کا متمنی ہوتا ہے اسی لئے اس کے جملوں کے اصل معانی و مفاہیم اس کی زبان کی جعلی تعلی کے پیچھے کہیں کھو جاتے ہیں۔

جو لوگ زبان کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں اور اس کی ادبی ماہیت کو سمجھتے ہیں انہیں یقیناً احساس ہوگا کہ آج کل کے ادیب مشکل الفاظ سے اپنی تحریر کو شگفتہ کرنے کی بجائے پھس پھسا کر لیتے ہیں اور وہ نکتہ آفرینی، شوخء تحریر اور برجستگی جو سادے الفاظ کے استعمال سے آ جاتی ہے وہ اس سے محروم رہ جاتے ہیں جیسے ہماری تہی دامنی سے فرشتے بے وضو پھرتے ہیں مشکل الفاظ کی اس بدہضمی کے شکار خواتین و حضرات کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ زنجیروں میں جکڑے قید نظر آتے ہیں کہ جن کے سیاق و سباق میں بیگار پر لائے گئے فقرات بددلی سے چوکیداری کر رہے ہوتے ہیں۔

فصاحت و بلاغت صرف مشکل الفاظ کو اپنے مضمون میں رکھ کر اس کے آگے پیچھے جملے بْننے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو اس لطیف احساس کی آئینہ دار ہے جو پڑھنے والے کو نہ صرف تحریر میں پنہاں رموز تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہے بلکہ ظاہری طور پر بھی زباں کی روانی اور موزونیت کا حظ اٹھواتی ہے۔ ایسے حضرات صرف مشکل الفاظ کے استعمال کو ہی فصاحت کی دلیل سمجھتے ہیں مگر وہ اس حقیقت سے صرف نظر کر دیتے ہیں کہ صحن چمن میں بھینسا باندھ دینے سے بھینسے کی افادیت پر تو سوال نہیں اٹھتا مگر چمن کی رعنائی ضرور ماند پڑ جاتی ہے۔

ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ چھوٹے بچے بہت بھاری بھرکم سکول بیگ کندھوں پر لادے سکول جا رہے ہوتے ہیں، یہی حال ان مضامین کا ہے جہاں سیدھے سادے فقرات میں اچانک وزنی فارسی اور عربی کے الفاظ اور تراکیب در آتی ہیں اور پڑھنے والا معصوم بچوں کی طرح نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے طور پر اس بوجھ کو کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ دقیق الفاظ کے استعمال سے اس بات کا تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا رٹا خوب ہے اور انہوں نے جو پڑھا ہے اس میں سے مشکل الفاظ ازبرکر لئے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں مگر قاری الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے بدمزہ ہو جاتا ہے جیسے جوان و خوبصورت بیوہ اپنے ارد گرد منڈلانے والے مرحوم شوہر کے ‘سگِ’ دوستوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔

ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ اردو عبارت میں لطف و انبساط کے حسین پہلو بھاری بھرکم الفاظ سے نہیں بلکہ اسلوب کی سادگی اور لکھنے والے کے اخلاص سے ہیں۔ آزاد کی طرح اردو میں عربی و فارسی لکھنے سے بہتر ہے کہ روزمرہ کی اردو میں شگفتہ نگاری کی جائے کہ قارئین کا بھی یہی تقاضا ہے-دوبارہ اصل مدعے یعنی صحافت پر آتے ہیںآ پ کو یاد رکھنا چاہیے کہ خبروں اور اطلاعات کے محافظ آپ صحافی ہی ہوں گے اس بارے میں یہ دلیل ناکافی ہے کہ سماجی رابطے کے نیٹ ورک سے لی گئی جو اطلاعات آپ صحافی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں وہ ”مستند‘ ‘ہیں چنانچہ ان کی سچائی کے سوال کی کوئی اہمیت نہیں رکھتا یا اہمیت کم ہے ان کی تصدیق آپ کا فرض ہے ۔

بلاشبہ سچائی ایک پیچیدہ تصور ہے اس کا معاملہ درستی جیسا نہیں یہ قطعی ممکن ہے کہ کسی ایسے واقعے کا بالکل درست بیان پیش کر دیا جائے جو سچ نہ ہو۔جس اخلاقی قدر کو ہم سچائی اور درستی کہتے ہیں الفاظ دیگر دھوکہ نہ دینے کا عہد کہا جا سکتا ہے ہم میں سے بیشتر لوگ سمجھتے ہیں کہ دھوکہ دینا یا گمراہ کرنا کیا ہوتا ہے-آراء یا بیانات کو رپورٹ کرنے میں بھی آپ کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے یہ بات کسی بھی طرح قبول نہیں کی جا سکتی کہ آپ کسی کے حوالے یا بیان کا کوئی اہم اور لازمی حصہ ہی اڑا دیں یا حوالے کسی ایسی جگہ دے دیں کہ اس کے سیاق و سباق ہی بدل جائیں ہو سکتا ہے آپ نے جو الفاظ استعمال کیے ہوں وہ وہی ہوں جو بیان ‘پریس ریلزیا تقریر میں استعمال کیے گئے ہوں لیکن آپ نے ان الفاظ میں سے کچھ اہم لفظوں کو کم کر کے انہیں مسخ کر دیا اور وہ معنی منتقل نہیں کیے جو ہونے چاہیں تھے-صحافی کے طور پر یہ آپکے کام میں شامل ہے کہ ایسے تمام عناصر کی چھان بین کریں جنہیں معروضی طور پر پرکھنا ممکن ہو، اور اپنی رپورٹ میں واضح طور پر بتا دیں کہ حقائق یہ ہیں آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنی رپورٹ میں آراء اور حقائق ایک دوسرے سے بالکل الگ دکھائیں-چونکہ دیکھا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں خبریت اور زبان دونوں غائب ہوتی جارہی ہیں حتی کہ آڈیٹوریل میں بھی ان کا خیال رکھنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے اس لیے مضمون میں زبان اور خبر کے بنیادی اصولوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے -آئندہ مضامین میں برادرم علی چوہدری اور دیگر اہل علم کی مشاورت کے مطابق عصرحاضر کے صحافتی تقاضوں سے شروع کرکے ہم تاریخ صحافت تک جائیں گے -آنے والے دنوں میں ہم سوشل میڈیا‘ڈیجیٹل میڈیا‘فیک نیوز‘ریڈیو‘ٹیلی ویژن اور ابلاغ کے دیگر ذرائع پر بحث کریں گے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :